62

نلکے اور ٹنکیوں پر نصب کم خرچ کلورین ڈسپینسر سے ڈائریا میں کمی

اسٹینفورڈ: اگر نلکوں، برمے اور پانی کے ذخائر پر خودکار نظام سے  کلورین شامل کردی جائے تو اس سے بہت فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں کئے گئے ایسے ہی ایک تجربے سے بہت حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں جس میں ایک کم خرچ ’آٹومیٹک کلورین ڈسپینسر‘ کو پانی کے نکاسی کےنظام کےعین سرے پر لگایا گیا ہے اور اس سے بچوں میں پیچش کے امراض میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ 

اس تحقیقی سروے کے اختتام پر نوٹ کیا گیا کہ پانی میں کلورین شامل ہونے پر اس کی رنگت اور ذائقہ بالکل تبدیل نہیں ہوا اور ڈائریا (پیچش اور اسہال) کے واقعات میں 23 فیصد کمی دیکھی گئی۔

غریب ممالک میں آلودہ پانی امراض اور مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ان میں ایک مرض ڈائریا ہے جو افریقہ سے ایشیا تک بچوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ بھی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے برخلاف تیسری دنیا میں فراہمی آب کا نظام بہت فرسودہ ہے اور پانی کی رہ گزر میں طرح طرح کےجراثیم اور بیکٹیریا اس میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے ایک ارب انسانوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور دیہاتوں میں صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔

اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہر اسٹیفن لیوبی اور ان کے  ساتھیوں نے ایکواٹیبس فلو نامی کمپنی کی تیارکردہ کلورین والی گولیوں کو ایک ڈسپینسر میں رکھ کر اسے نلکے کے پاس لگایا ۔ اور اس کا پانی بچوں اور بڑوں نے استعمال کیا۔ کلورین ڈسپینسر میں بجلی کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی کوئی متحرک حصہ ہے جسےبار بار دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ کلورین ڈسپینسر کو ہینڈ پمپ پر بھی لگایا گیا۔ اس طرح پانی گزرتا رہا اور کلورین اس میں ملتی رہی اور پانی کے جراثیم کو مارتی رہی۔

ماہرین نے 1000 سے زائد بچوں کو کلورین ڈسپینسر کا پانی پلایا اور اس کا موازنہ بغیرکلورین کے پانی پینے والے بچوں سے کیا تو دیکھا کہ ڈائریا کے واقعات 23 فیصد کم ہوئے۔ کلورین ای کولائی بیکٹیریا کو تباہ کرتی ہے جو ڈائریا سمیت کئی امراض کی وجہ بنتے ہیں۔