مشی گن: جوتے کے ڈبے میں سماجانے والا ایک آلہ ایجاد کیا گیا ہے جو سانس اور پھیھڑوں کے کئی جان لیوا امراض کی شناخت کرسکتا ہے۔
دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں لوگ ’اکیوٹ ریسپائریٹری ڈسٹریس سنڈروم‘ یعنی اے آر ڈی ایس کے شکار ہوتے ہیں اور جان کھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن اب نیا آلہ اس جان لیوا کیفیت کی فوری شناخت کرتا ہے اور لوگوں کی زندگی بچاسکتا ہے۔ بروقت شناخت سے مرض کی پیچیدگی کم ہوتی ہے اور مریض کی جیب پر بھی بوجھ نہیں پڑتا۔
اب سے قبل تک اے آر ڈی ایس کی شناخت کے لیے ایکسرے پر انحصار کیا جاتا تھا جس سے بسا اوقات مرض کی شناخت میں دقت پیش آتی تھی۔ ہرگزرتا وقت پھیپھڑوں کی کیفیت کو بد سے بدتر بنادیتا ہے جس کے لیے مرض کی فوری شناخت ضروری ہوتی ہے۔ یہ آلہ مریض کی زندگی بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
یونیورسٹی آف مشی گن کے بایومیڈیکل انجینیئرنگ شعبہ سے وابستہ پروفیسر ژیوڈونگ فین اور ان کے ساتھیوں نے اس آلے کو ایجاد کیا ہے۔ ژیوڈونگ کے مطابق اس وقت اے آر ڈی ایس کا پتا لگانے والے جتنے بھی آلات ہیں وہ صرف 18 فیصد درستگی دکھاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر مریض نصف گھنٹے اس آلے میں سانس لے تو مکمل طور پر خودکار مشین 90 فیصد درستگی سے مرض کا پتا لگاسکتی ہے۔
اسے تجرباتی طور پر یونیورسٹی کے ہسپتال میں 48 افراد پر آزمایا گیا جن میں 21 مریض تھے اور باقی افراد کو سانس کی کوئی بیماری لاحق نہ تھی اور آلے نے نہایت درستگی سے مریضوں کو شناخت کیا۔ اس سسٹم میں گیس کروماٹوگرافی نصب ہے جو سانس میں موجود مختلف سالمات (مالیکیول) میں سے 100 اقسام کے سالمات شناخت کرسکتا ہے۔ اس سے ڈاکٹروں کو نہ صرف مرض کا پتا چلتا ہے بلکہ وہ مرض کی شدت اور اس کے درجے کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں۔ علاج کے بعد مریض کی بحالی کا اندازہ بھی اس آلے سے لگایا جاسکتا ہے۔
صرف امریکا میں ہی ہر سال 74 ہزار افراد اس مرض کے ہاتھوں فنا ہوجاتے ہیں ۔ اے آر ڈی ایس میں نمونیا، پھیپھڑوں کی جلن اور ان میں مائع بھرنے جیسی کیفیات عام ہیں جو فوری طور پر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔