51

مسلمانوں کا قتل عام ٗ میانمار کی فوجی قیادت پر پابندی

واشنگٹن۔چاروں جنرلز ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں۔امریکا نے روہنگیا مسلمانوں کو قتل کرنے کے جرم میں میانمار کے کمانڈر ان چیف اور نائب سمیت 4 جنرلز پر پابندیاں عائد کردیں۔امریکی خبررساں ادارے  اے پی کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے جن افراد پر پابندیاں عائد کی ہیں ان میں کمانڈر ان چیف منگ آنگ ہلانگ،ان کے نائب سوئے ون اور ان کے ماتحت 2 جنرلز شامل ہیں جنہیں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ بدترین سلوک کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ میانمار میں شمالی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی مہم میں چاروں جنرلز ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں۔ان پابندیوں کے تحت جنرلز اور ان کے خاندان امریکا نہیں جاسکتے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے جاری کیے گئے باضابطہ اعلان میں کہا گیا کہ  ہمیں تشویش ہے کہ برما کی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے افراد کا احتساب کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے اور برما کی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی رپورٹس مسلسل آرہی ہیں۔مذکورہ بیان میں میانمار کو برما کہا گیا ہے، خیال رہے کہ 1989 میں فوجی حکومت نے برما کا نام تبدیل کرکے میانمار رکھا تھا۔میانمار کی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل زا من تن نے کہا کہ یہ پابندیاں پوری فوج کے خلاف ایک دھچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ  میانمار کی فوج ایک ادارہ ہے جو ایک نظام کے ذریعے چلتا ہے۔

 یہ پابندیاں صرف اعلی رہنماں کے خلاف نہیں بلکہ پوری فوج کے خلاف ہے۔زا من تن، میانمار کی فوج کی خصوصی تعلقات عامہ ٹیم کے رکن ہیں جنہیں فوج کی اصل نیوز انفارمیشن ٹیم کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ فوج رخائن ریاست میں پیش ہونے والے حادثات سے متعلق اس وقت سے تحقیقات کررہی ہے جب ان واقعات کو پہلی مرتبہ رپورٹ کیا گیا تھا۔ترجمان نے کہا کہ کئی تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں اور کچھ اہلکاروں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔زا من تن کا کہنا تھا کہ  عالمی برادری اور امریکا کو فوج کے نظام انصاف کا احترام کرنا چاہیے۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بیان میں منگ یانگ ہلانگ کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کیماورائے عدالت قتل کے مجرم سپاہیوں کی رہائی کے حکم کو فوج اور اس کی سینئر قیادت کے خلاف احتساب کی شدید کمی کی مثال قرار دیا۔

انسانی حقوق کے گروپ فورٹیفائی رائٹس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ  صرف اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا اقدام کافی نہیں ہے لیکن یہ مزید انصاف اور احتساب کی طرف ایک قدم ہے۔واضح رہے کہ میانمار کی فوج کو اگست 2017 سے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے 7 لاکھ روہنگیا مسلمان ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔ث ناقدین کی جانب سے اصرار کیا جاتا ہے کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ(آئی سی سی)میانمار کے اقدامات کا فیصلہ کرے۔