61

عالمی ویکسین مہم میں رکاوٹ سے غریب بچوں کی صحت کو خطرہ

 لندن: اقوامِ متحدہ کے ماتحت اداروں نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے متنازعہ، غریب ترین اور جنگ زدہ ممالک میں بچوں کی بڑی تعداد ویکسین سے محروم ہے اور یوں ان میں خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیموں نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کو سب سے عام بیماریوں سے بچانے والی ویکسین کی شرح میں کمی آئی ہے کیونکہ 95 فیصد بچوں کو ویکسین دینے کا ہدف پورا نہیں ہوسکا ہے۔

پیر کے روز عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف نے اعدادوشمار پر جاری اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2010 کے بعد خناق (ڈپتھیریا)، تشنج (ٹیٹانس) اور کالی کھانسی (پرٹسِس) اور خسرے (میزلز) کی ویکسین کی شرح 95 فیصد کے بجائے 86 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دو کروڑ بچوں کو ویکسین نہیں دی گئی، یعنی دس میں سے ایک بچہ اس مرض کا شکار ہوسکتا ہے؛ جبکہ سال 2018 اس ضمن میں بدترین ثابت ہوا ہے۔

ویکسین کانفیڈنس پروجیکٹ کی سربراہ ہیڈی لارسن نے نے کہا ہے، ’غریب اور ترقی یافتہ ممالک میں ویکسین کے خلاف سوشل میڈیا پر مہمات چلائی جارہی ہیں جن میں سیاسی مقاصد بھی شامل ہیں۔ اس طرح لوگوں کی اپنے بچوں کو ویکسین دینے کی جانب رغبت کم ہورہی ہے۔‘ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ یورپ میں بھی ویکسین کے انکاری افراد میں اضافہ ہورہا ہے۔

دوسری جانب یونیسیف نے کہا ہے کہ طبی سہولیات میں کمزور ممالک کے دوردراز دیہی علاقوں میں بچوں تک رسائی دوسرا گمبھیر مسئلہ ہے۔ عالمی تنازعات سے بچوں کی بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے اور انہیں ویکسین نہیں مل رہی ہے۔

ایک اور ڈیٹا سے ظاہر ہوا ہے کہ صرف نائجیریا، پاکستان اور بھارت میں 70 لاکھ بچے ویکسین سے محروم رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب جنگ کے شکار صومالیہ، مالی، افغانستان، جنوبی سوڈان، شام اور یمن میں حالات اس سے بھی خراب ہیں جہاں سے ڈیٹا بھی نہیں مل سکا ہے۔

اس اہم ناکامی کے خطرات بھی سامنے آئے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے کہا ہے کہ 2018 میں خسرے کے واقعات میں دوگنا اضافہ ہوا ہے یعنی 350,000 کیسز رجسٹر ہوئے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک اور مشرقی اوقیانوسی عوام میں بھی خسرے کے واقعات بڑھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بھی افواہوں نے کام دکھایا ہے اور ویکسی نیشن کی شرح گرتی جارہی ہے۔

یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہنریٹا فور نے کہا ہے کہ خسرہ چھوت کا مرض ہے جو تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس ضمن میں ڈیٹا غائب ہے کیونکہ رسائی مشکل ہے اور بچوں کی ویکسین تک رسائی ناممکن ہوچکی ہے۔

دوسری جانب برطانوی ویلکم فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ پوری دنیا میں لوگوں کا ویکسین پر سے اعتبار کم ہوتا جارہا ہے اور یوں پانچ میں سے ایک فرد ویکسین کی افادیت کا قائل نہیں رہا۔