83

1100 وفاقی اور صوبائی ملازمین دہری شہریت کے مالک نکلے

اسلام آباد۔1100 سے زائد وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمین دہری شہریت کے مالک نکلے، مذکورہ افسر اہم حکومتی عہدوں پر بھی براجمان ہیں۔ گریڈ 22 کے 6 جبکہ ایم پی ون سکیل کے 11، گریڈ 21 کے 40، گریڈ 20 کے 90، گریڈ 19 کے 160، گریڈ 18 کے 220 اور گریڈ 17 کے کم و بیش 160 ملازمین دہری شہریت رکھتے ہیں۔ 

ان سرکاری ملازمین میں سے 540 نے کینیڈا کی شہریت لے رکھی ہے جبکہ 240 نے برطانیہ اور 190 کے قریب نے امریکہ کی شہریت لے رکھی ہے۔ اسی طرح درجنوں سرکاری ملازمین نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائیشیا اور آئرلینڈ جیسے ملکوں کی بھی شہریت لے رکھی ہے۔

15 دسمبر کوسپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پر مشتمل ایک بینچ نے اس اہم مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایسے ملازمین کے لیے کوئی ڈیڈ لائن مقرر کر کے لائحہ عمل بنائے تاکہ وہ لوگ جنھوں نے دوران ملازمت کسی دوسرے ملک کے ساتھ وفاداری نبھانے کی شرط پر شہریت لے رکھی ہے یا وہ فوری طور پراپنی غیر ملکی شہریت چھوڑیں یا ملازمت، کیوں کہ ایسے لوگوں کی اہم حکومتی عہدوں پر تعیناتی سے ملک کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی وفاقی حکومت دہری شہریت کے حامل سرکاری ملازمین کے لیے تا حال کوئی ڈیڈ لائن مقررنہ کر سکی کہ کب تک وہ یا تو اپنی دہری شہریت چھوڑ یں گے یا ملازمت۔ 

حکومتی موقف جاننے کے لیے وزیر اعظم کے ترجمان افتخار درانی اور وفاقی وزیر اطلاعات سے رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے کسی بھی بات کا جواب دینے سے گریز کیا۔دستاویزات کے مطابق داخلہ ڈویژن کے 20، پاور ڈویژن 44، ایوی ایشن ڈویژن 92، خزانہ ڈویژن 64، پٹرولیم ڈویژن 96، کامرس ڈویژن 10، آمدن ڈویژن 26، اطلاعات و نشریات 25، اسٹیبلشمنٹ 22، نیشنل فوڈ سکیورٹی 7، کیپیٹل ایڈمنسٹریشن 11،مواصلات ڈویژن 16، ریلوے ڈویژن 8، کیبنٹ ڈویژن کے 6 افسر دہری شہریت کے حامل ہیں۔

دستاویزات کے مطابق سب سے زیادہ دہری شہریت کے حامل افراد کا تعلق محکمہ تعلیم سے ہے اور ان کی تعداد 140 سے زیادہ ہے۔ اسی طرح قومی ایئر لائن کے 80 سے زیادہ ، لوکل گورنمنٹ 55، سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر 55، نیشنل بینک 30، سائنس اور ٹیکنالوجی 60، زراعت 40 سے زیادہ، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن 20، آبپاشی 20، سوئی سدرن 30، سوئی ناردرن 20، پی ایم ایس 17، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس 14، نادرا کے 15 ملازمین دہری شہریت کے حامل ہیں۔ دستاویزات کے مطابق اہم شخصیات میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے گریڈ 22 کے چیف سیکرٹری خیبر پختونخوانوید کامران بلوچ کینیڈا، 

(پی اے ایس) کی پہلی خاتون صدر اور گریڈ 22 کی وفاقی سیکرٹری انسانی حقوق ڈویژن رابعہ آغا برطانیہ، گریڈ 22 کے سیکرٹری بورڈ آف انویسٹمنٹ سردار احمد نواز سکھیرا امریکہ، گریڈ 21 کے موجودہ ڈی جی پاسپورٹ و امیگریشن عشرت علی برطانیہ، گریڈ 22 کی سابق سیکرٹری سرمایہ کاری بورڈ سمیرا نذیر صدیقی نیوزی لینڈ، گریڈ 20 کے سیکرٹری اوقاف پنجاب ذوالفقار احمد گھمن امریکہ، مراکو میں سابق سفیر نادر چودھری برطانیہ، قطر میں سابق سفیر شہزاد احمد برطانیہ،

کسٹم کے گریڈ 21 کے ایڈیشنل وفاقی سیکرٹری خزانہ احمد مجتبیٰ میمن کینیڈا، گریڈ 21 کی چیف کلیکٹر کسٹم زیبا حئی اظہر کینیڈا، پولیس سروس کے گریڈ 22 کے اقبال محمود (ر)، گریڈ 21 کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس اور ساہیوال سانحہ کی تحقیق کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ سید اعجاز حسین شاہ کینیڈا، گریڈ 21 کے اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب میاں شجاع الدین ذکا کینیڈا، چیئرمین پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین فوزیہ وقار کینیڈا، پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے سابق منیجنگ ڈائریکٹرسید ومیق بخاری امریکہ، موجودہ ایم ڈی معین رضا خان، نیشنل بینک کے سابق صدر سعید احمد برطانیہ، 

ڈائریکٹر جنرل پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے سربراہ ڈاکٹر محمد اشرف طاہر امریکہ، گریڈ 20 کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ / پریس انفارمیشن آفیسر جہانگیر اقبال کینیڈا، گریڈ 19 کی محکمہ پریس انفارمیشن پنجاب میں ترجمان پنجاب پولیس نبیلہ غضنفر کینیڈا اور سابق پنجاب حکومت کے ساتھ اہم قانونی معاملات پہ کام کرنے والے نامور قانون دان سلمان صوفی امریکہ کے شہری ہیں۔