بوسٹن: ہمارے دماغ کا ہر خلیہ ایک چھوٹے (منی) کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے۔ اس لحاظ سے انسانی دماغ میں 100 ارب سے زائد کمپیوٹر ہمہ وقت کام کرتے رہتے ہیں۔
اس ضمن میں ماہرین نے پہلی مرتبہ انسانی دماغ میں برقی سرگرمی کی بنیاد پر تحقیق کی ہے جس میں انسانی دماغی خلیات (نیورونز) کی انتہائی گہرائی سے تفصیلات لی گئی ہیں۔ اس تحقیق کے بعد انسان اور چوہوں کے دماغ اور ان سے وابستہ اعصاب کے درمیان تعلق پر بات کی گئی ہے جس سے بڑی حد تک انسانی دماغ و ذہانت کی قوت سامنے آئی ہے۔
انسانی دماغ میں ایک سو ارب سے زائد نیورونز پائے جاتے ہیں اور ایک خلیہ دوسرے سے ہزاروں روابط رکھتا ہے جبکہ خلیے ایک دوسرے کے ساتھ برقی جھماکوں کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔ اگرچہ اس ضمن میں چوہوں کے خلیات پر بہت تحقیق ہوئی ہے لیکن انسانی خلیات پر تحقیق نہیں ہوئی تھی۔
اس کےلیے میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ماہر مارک ہارنیٹ نےایسے سرجنوں سے رابطہ کیا جو مرگی کے مریضوں کے دماغ سے انتہائی باریک نمونے لیتے ہیں۔ ہارنیٹ نے ان نمونوں پر انتہائی باریک، حساس اور خردبینی برقیرے (الیکٹروڈ) لگائے اور نیورونز کی گہرائی تک برقی سرگرمی کو نوٹ کیا۔
مارک نے ثابت کیا ہے کہ ہر دماغی خلیے کی باریک شاخیں ہوتی ہیں جنہیں ڈینڈرائٹس کہا جاتا ہے اور ایک خلیے سے اوسطاً 50 ڈینڈرائٹس جڑے ہوتے ہیں۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ہر ڈینڈرائٹ کے سیکڑوں تار جیسے کنیکشنز ہوتے ہیں جنہیں ’’سائنیپسز‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہرتار سے ایک خلیہ جڑا ہوتا ہے۔
اس طرح انسانی دماغ میں ہر خلیے کے ڈینڈرائٹ سے ہزاروں رابطے نکلتے ہیں اور یہ سب مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کس طرح کئی سگنل خارج کرنے ہیں۔ اس لحاظ سے ماہرین نے کہا ہے کہ ہر خلیہ اپنی قوت کے لحاظ سے ایک منی کمپیوٹر ہی کی طرح ہے۔