کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ایک شخص جس کی آمدنی 12 سو روپے ہو وہ اگلے 10 یا 20 برس میں کھرب پتی بن جائے؟
اگر نہیں تو معروف ای کامرس کمپنی علی بابا کے بانی اور چیئرمین جیک ما نے کچھ ایسا ہی کرکے دکھایا۔
جیک ما اس وقت 45 ارب ڈالرز (45 کھرب پاکستانی روپے سے زائد) کے مالک ہیں مگر ایک وقت تھا جب ان کی ماہانہ آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی۔
1988 میں گریجویشن کے بعد جیک ما نے اپنے آبائی علاقے ہانگژو میں ایک یونیورسٹی میں انگلش ٹیچر کے طور پر کام کرنا شروع کیا جہاں ان کی ماہانہ تنخواہ محض 12 ڈالر تھی۔
جیک ما درحقیقت کالج میں داخلے کے امتحانات میں 2 بار ناکام ہوئے اور انہیں درجنوں ملازمتوں سے برطرف کیا گیا۔
1995 میں انہیں امریکا جانے کا موقع ملا جہاں انٹرنیٹ نے انہیں اپنی جانب کھینچا اور پھر انہوں نے 2 انٹرنیٹ کمپنیوں کو تشکیل دیا جو ناکام ثابت ہوئیں مگر پھر تیسری بار اپنی انٹرنیٹ کمپنی کو علی بابا کا نام دیا اور کامیاب ہوگئے۔
1999 میں اس کمپنی نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور اب اس کی مالیت 500 ڈالرز کے قریب ہے جبکہ جیک ما کے اپنے اثاثوں کی مالیت 45 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔
تاہم جیک ما کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت زیادہ خوش تھے جب ان کی آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی اور وہ اپنے جدوجہد کے دور کو زندگی کا بہترین حصہ قرار دیتے ہین۔
ان کے بقول جب آپ کے پاس زیادہ دولت نہیں ہوتی تو آپ جانتے ہیں کہ اپنی آمدنی کو کیسے خرچ کرنا چاہئے مگر جب آپ ارب پتی بن جاتے ہیں تو ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔
آسان الفاظ میں جیک ما ارب پتی ہونا ایک بوجھ قرار دیتے ہیں ' جب آپ ایک ارب ڈالرز کمالیتے ہیں تو وہ آپ کی دولت نہیں ہوتی، میرے پاس جو دولت آج ہے وہ ایک ذمہ داری ہے، یہ لوگوں کا مجھ پر اعتماد ہے'۔
اپنے مختلف انٹرویوز میں وہ کہہ چکے ہیں کہ جب آپ 10 لاکھ ڈالرز کماتے ہیں تو 'خوش قسمت' ہیں مگر جب یہ رقم ایک کروڑ ڈالرز تک پہنچ جاتی ہے 'تو آپ مشکل میں پڑجاتے ہیں'۔
جیک ما 45 ارب ڈالرز کے اثاثوں کے ساتھ چین کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں مگر نمود و نمائش کے سخت مخالف اور اپنی ذاتی زندگی کو لوگوں کی نگاہوں سے دور رکھنے کے حامی ہیں۔
وہ اب بھی چوٹیوں کے اوپر مراقبے اور اپنے گھر میں دوستوں کے ساتھ پوکر کھیل کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ان کے ایک دوست اور کمپنی میں معاون چین نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ جیک ما کا طرز زندگی بہت سادہ اور متعدل ہے۔
ان کا کہنا تھا 'جیک ما کے پسندیدہ مشاغل میں اب بھی ٹائی چی اور کنگفو ناولز پڑھنا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ وہ دنیا کے امیر ترین شخص بن کر بھی بدلیں گے کیونکہ ان کا انداز بدلنے والا نہیں یا وہ پرانی سوچ کے حامل شخص ہیں'۔