13

آئینی ترامیم: جوڈیشل کونسل کی رپورٹ پر صدر کسی بھی جج کو برطرف کرسکیں گے

  اسلام آباد: سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججز کے خلاف آرٹیکل 175 اے اور آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی، جوڈیشل کمیشن ججز کی سالانہ بنیادوں پر کارکردگی کا جائزہ لے گا، غیر تسلی بخش کارکردگی پر 5 رکنی جوڈیشل کمیشن انکوائری کرے گا۔

پارلیمنٹ سے منظور کی گئی آئینی ترامیم کے مطابق سپریم جوڈیشل کمیشن پاکستان کو ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ بنیادوں پر کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہوگا، ہائی کورٹ جج کی تقرری غیرتسلی بخش ہونے پر کمیشن جج کو کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ٹائم فریم دے گا۔

دیے گئے ٹائم فریم میں جج کی کارکردگی دوبارہ غیر تسلی بخش ہونے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بجھوائی جائے گی، چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف جسٹس ہائی کورٹس یا کمیشن میں موجود ججز کی غیر تسلی بخش کارکردگی کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل دیکھے گی اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج کو مذکورہ ترمیم کے تحت ہٹایا جا سکے گا۔

جوڈیشل کونسل جسمانی یا ذہنی معذوری،غلط برتاؤ اور دفتری امور بہتر انجام نہ دینے پر کمیشن کی رپورٹ یا صدر کی درخواست پر انکوائری کرے گی، سپریم جوڈیشل کونسل بنا تاخیر کے 6 ماہ کے اندر متعلقہ ججز سے متعلق انکوائری مکمل کرنے کی پابند ہوگی۔

 

ترمیم کے تحت جوڈیشل کونسل رپورٹ میں فرائض کی انجام دہی میں قاصر، بد تمیزی یا غیرتسلی بخش کارکردگی کے مرتکب ہونے پر رپورٹ صدر مملکت کو بھجوائے گی۔ صدر مملکت کو سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ پر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار ہوگا۔