129

ملکی خارجہ پالیسی کا از سر نو تعین کیا جائے‘ اسفند یار ولی

چارسدہ ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے کہا ہے کہ ہر ادارہ اپنے اختیارات کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرے ، نیب اس وقت صرف اور صرف نوازشریف اور اس کے خاندان کے پیچھے پڑی ہے اور دوسرا جو کوئی مرضی چلاتا رہے اس سے نیب کو کوئی فرق نہیں پڑتا، بلین ٹری سونامی کے حوالے سے جو کچھ کیا جا رہا ہے اور کچھ لکھا جا رہا ہے کیا نیب والوں کو یہ نظر نہیں آ رہا؟ ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کے ازسرنو تعین کے لئے کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے اور تمام جماعتوں کی مشاورت سے خارجہ اور داخلہ پالیسی بنائی جائے اور اس کی تصدیق پارلیمنٹ سے کروائی جائے، سینیٹ انتخابات ہوں یا قومی انتخابات ہوں وہ اپنے وقت پر ہوں تاکہ جو احساس محرومی بڑھ رہی ہے، اس پر قابو پایا جائے خدا را سیاست کو پارلیمنٹ تک محدود کرو ، اگر عدلیہ اور مقننہ کے درمیان براہ راست تصادم ہو گا تو اس سے ملک کے لئے ذرہ برابر خیرنہیں ہو گی بلکہ صرف تباہی ہو گی۔

ان خیالات کا اظہار اسفند یار ولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں حاجی غلام احمد بلور، میاں افتخار حسین، بشریٰ گوہر، سینیٹر زاہد خان اور سینیٹر شاہی سید کے ہمراہ چارسدہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہر ادارے کو چاہئے کہ آئین کے تحت جو بھی اختیار اسے دیئے گئے ہیں، وہ ان اختیارات کے اندر رہتے ہوئے اپنا کام کریں۔ اگر ہر ادارہ یہ فیصلہ کرے کہ آئین میں جو مجھے اختیارات ملے ہیں ان سے میں نے آگے نہیں بڑھنا تو کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات ہوں یا قومی انتخابات ہوں وہ اپنے وقت پر ہوں تاکہ جو احساس محرومی بڑھ رہی ہے۔ اس پر قابو پایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت پہلے سے ہم چیختے چلاتے ہیں کہ خدا را سیاست کو پارلیمنٹ تک محدود کرو لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں کہ پارلیمنٹ کی بجائے سیاست کو عدالتوں میں لے گئے۔ اب جب عدالتوں میں لے گئے ہیں تو خدا کرے اب یہ مسئلہ کنٹرول ہو جائے اور کوئی ٹکراؤ نہ آئے۔

جس سے ملک کو نقصان پہنچے۔ اسفند یار ولی خان کا کہنا تھا کہ اگر میڈیا مجھ میں اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں کرتا تو میرے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حالات خراب ہوئے تو نہ ہم عمران کے ساتھ ہوں گے اور نہ نوازشریف کے ساتھ ہوں گے بلکہ ہم پارلیمنٹ اور آئین کے ساتھ ہوں گے اور ان دونوں کے ساتھ ہم کھڑے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں یہ خوبصورتی ہے کہ اس میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے لیکن ہمارے بعض سیاستدان اختلاف کی اس حد کو نہیں سمجھ پا رہے اور سیاسی جنگ کو ذاتی جنگ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اگر دو افراد سیاسی جنگ کو ذاتی جنگ میں تبدیل کرتے ہیں تو اس کا الزام سارے سیاستدانوں پر تو نہیں لگایا جا سکتا۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی ماحول کو ٹھنڈا کیا جائے اگر عدلیہ اور مقننہ کا براہ راست تصادم ہو تو اس سے ملک کے لئے ذرہ برابر خیر نہیں ہوئی بلکہ صرف تباہی ہو گی۔ درجہ حرارت کو مزید بڑھانے کی بجائے کم کرنے کی ضرورت ہے اگر پارلیمنٹ اپنی لڑائی جاری رکھے اور سپریم کورٹ اپنی لڑائی جاری رکھے اور اختیارات پر دونوں کی لڑائی ہو تو اس سے تو حالات مزید خراب ہونگے۔ اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ہر ایک ادارے کو جو آئین نے جو اختیارات دیئے ہیں وہ اس دائرہ میں رہ کر فیصلے کرے۔ اسفند یار ولی خان کا کہنا تھا کہ کوئی جتنا بھی طاقتور ہو جائے اس سے بھی طاقتور ایک، دو بندے ہوتے ہیں اور ان طاقتوروں کے سامنے عام طاقتور بے بس رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کب سے چلا رہے ہیں کہ آرمی پبلک سکول واقعہ کے بعد بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس بلائیں اور داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کا ازسرنو تعین کریں۔ تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے اور خارجہ اور داخلہ پالیسی تشکیل دی جائے اور یہ پالیسی پارلیمنٹ میں جائے اور پارلیمنٹ سے اس کی تصدیق ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کی خواہش ہو گی کہ سی پیک نہ بنے مگر اس پر اتنی سرمایہ کاری ہو چکی ہے کہ یہ ضرور بنے گی۔ان کا کہنا تھا کہ نیب اندھی ہے۔ گونگی ہے اور بہری ہے۔ ہر شام ٹی وی پر صحافی جو تبصرے کر رہے ہوتے ہیں کیا نیب والے یہ نہیں دیکھ رہے۔ بلین ٹری سونامی پر جو کچھ کیا جا رہا ہے اور جو کچھ لکھا جا رہا ہے۔ کیا نیب والوں کو یہ نظر نہیں آ رہا۔ ایک ارب 80 کروڑ کی لاگت سے حیات آباد میں پل بنا اب اس پر اتنا بڑا بورڈ لگا ہوا ہے کہ گاڑیاں نہ گریں کیا نیب کو یہ نظر نہیں آتا۔ نیب اس وقت صرف اور صرف نوازشریف اور اس کے خاندان کے پیچھے پڑی ہے دوسرا جو کوئی مرضی چلاتا رہے اس سے نیب کی کوئی دلچسپی نہیں۔