امریکی خلائی ادارے ناسا نے لیزر کے ذریعے ایسے سگنل موصول کرنے کے تجربے میں کامیابی حاصل کی ہے جو ایک کروڑ میل دور سے بھیجا گیا تھا۔
ناسا کی جانب سے جاری بیان کے مطابق نئی لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے اس پیغام کو بھیجا گیا تھا اور اس ٹیکنالوجی سے اسپیس کرافٹس سے فوری رابطہ ممکن ہو سکے گا۔
ناسا کی نئی ڈیپ اسپیس آپٹیکل کمیونیکیشنز (ڈی ایس او سی) ٹیکنالوجی کے تجربے کے دوران پہلی بار ڈیٹا کو بھی لیزر کے ذریعے چاند سے بھی دور بھیجنے میں کامیابی حاصل کی گئی۔
ابھی خلا میں اسپیس کرافٹ سے رابطے کے لیے ریڈیو سگنلز پر انحصار کیا جاتا ہے جس کے لیے زمین پر بہت بڑے انٹینے لگائے جاتے ہیں۔
یہ طریقہ کار اچھا تو ہے مگر محدود ہے کیونکہ کئی بار بڑی فائلز جیسے ایچ ڈی فوٹوز اور ویڈیو کو بھیجنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
اسی وجہ سے ناسا کی جانب سے ڈی ایس او سی پر کام کیا جا رہا تھا جس میں لیزر کے ذریعے تیز رفتار رابطوں کو یقینی بنایا گیا ہے۔
ناسا کے مطابق یہ ٹیکنالوجی ڈیٹا ٹرانسفر کو 100 گنا تیزی سے ممکن بنا سکے گی۔
زمین سے روانہ کیے گئے ناسا کے Psyche مشن کے ذریعے اس ٹیکنالوجی کی آزمائش کی گئی۔
اس اسپیس کرافٹ میں ایسا لیزر transceiver نصب ہے جو لیزر سگنل بھیجنے اور موصول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
گزشتہ دنوں اسپیس کرافٹ کی جانب سے ایک کروڑ میل کے فاصلے سے سگنل بھیجا گیا اور ناسا کے مطابق تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔
ناسا عہدیداران کا کہنا تھا کہ آنے والے مہینوں میں اس ٹیکنالوجی کی مزید آزمائش کی جائے گی اورڈیٹا کی ترسیل یا موصول کرنے کا عمل برق رفتار ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی مریخ پر انسانوں کے سفر کے لیے اہم ثابت ہوگی کیونکہ اس سے ویڈیو اسٹریمنگ ہو سکے گی۔
ابھی سائنسدانوں کی جانب سے اس سسٹم کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے تاکہ اسپیس کرافٹ کی جانب سے لیزر کو درست سمت پر بھیجنا یقینی بنایا جاسکے۔