88

وفاق اور صوبوں کی قیدی کو سرعام لٹکانے کی تجویز کی مخالفت

اسلام آباد۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے متفقہ طورپر پھانسی کے قیدی کو سرعام لٹکانے کی تجویز کی مخالفت کر دی ۔ واضح کیا گیا ہے کہ خون بہا لینے کی تسکین کے لیے متاثرہ خاندانوں کی جیل میں پھانسی گھاٹ کے سامنے موجودگی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔ اسلام اور قانون دونوں اس کی اجازت دیتے ہیں سرعام پھانسی سے عوامی ہجوم کو سنبھالنا مشکل ہو سکتا ہے کسی چوک چوراہے پر پھانسی گھاٹ کی منتقلی بھی نا ممکن ہو گی ۔ وزیر قانون و انصاف چوہدری محمد بشیر ورک نے واضح کیا ہے کہ انسانی وقار احترام اور بنیادی حقوق سے متعلق آئین کی شقوں 8 اور 14 سے انحراف نہیں کیا جا سکتا ۔ آئین و قانون کے منافی کوئی فیصلہ کیا گیاتو پھانسی کے منتظر قیدی کا کیس طوالت اختیار کر سکتا ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے سرعام پھانسی پر پابندی کے بارے میں ایک ہفتہ میں عدلیہ کے 1994 ء کے فیصلے اور اس معاملے پر وزارت قانون و انصاف سے تحریری رائے مانگ لی ہے ۔ چےئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے واضح کیا ہے انسانی جان لینے والے مجرم کی پھانسی کے موقع پر شرعی رو سے تین سے چالیس لوگ موجود ہو سکتے ہیں ۔

صوبائی حکومتوں نے پھانسی کی میڈیا کوریج کی تجویز کو بھی مخالفت کر دی ہے ۔ بدھ کو قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چےئرمین جاوید عباسی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا ۔ اجلاس کے دیگر تمام ایجنڈا آئٹمز کو موخر کرتے ہوئے زینب زیادتی و قتل کیس کے تناظر میں مجرم کو سرعام پھانسی دینے کے لیے متعلقہ قوانین میں ترامیم کی تجویز کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ پنجاب ، سندھ ، خیبر پختونخوا ، بلوچستان کے داخلہ کے محکموں اور جیل خانہ جات کے صوبائی حکام ،سیکرٹری قانون و انصاف چےئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے متذکرہ معاملے پر اپنی تجاویز دیں ۔ وزیر قانون و انصاف چوہدری محمد بشیر ورک نے بھی اپنے موقف سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا مکمل اختیار حاصل ہے تاہم آئین میں انسان کے بنیادی حقوق وقار احترام کی شقوں کا بھی خیال رکھنا ہو گا ۔ غیر قانونی اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے جس سے مقدمہ کے فیصلہ پر عملدرآمد میں تاخیر ہو سکتی ہے ۔ صوبوں کے ہوم ڈیپارٹمنٹس کے سیکرٹریز و ایڈیشنل سیکرٹریز نے بھی سرعام کی بجائے مجرم کو جیل احاطہ میں پھانسی دینے کے قانون کو برقرار رکھنے کی رائے دی ۔

بلوچستان کے ایڈیشنل سیکرٹری کے علاوہ چےئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی ملک میں کسی بھی جرم پر سزا ملنے کا یقین ہونے کی آگاہی پر زور دیا اور کہا کہ سخت ترین سزائیں اپنی جگہ پر امن معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ جرم کرنے والوں کو سزا ملنے کا یقین ہو اس طرح جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ چےئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ خون بہانے والے مجرم کی پھانسی کے موقع پر متاثرہ خاندان کو یہ منظر دیکھنے کے لیے بلایا جا سکتا ہے ۔ دو تین سے چالیس لوگوں کی موجودگی کی اجازت ہے ۔ سول سوسائٹی کے لوگ بھی ان میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ صوبوں کے متعلقہ حکام کا کہنا تھا کہ جرم کی زیادہ تشہیر سے معاشرے پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ احساسات اور جذبات اپنی جگہ معاشرتی ذہنی رویوں بالخصوص بچوں کے ذہنوں کو مد نظر رکھنا ہو گا پھانسی دینے کی میڈیا کوریج بھی نہیں ہونی چاہیے ۔ پنجاب کے سیکرٹری جیل خانہ جات نے تجویز دی کہ والدین کو بچوں کو انگلش فلمیں دیکھنے سے بچانا چاہیے ان فلموں میں جو مناظر دیکھتے ہیں بچے اسی طرح کرنے کی مشق کی کوشش کرتے ہیں ۔ انگلش فلموں میں کرداروں کو بڑی بڑی عمارتوں سے چھلانگ لگاتے دیکھا جاتا ہے جس سے بچوں کے ذہنوں پر خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور وہ اس قسم کی مشق کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

سرعان پھانسی سے معاشرے میں اپنی زندگیوں سے تنگ افراد کی حوصلہ افزائی کا خدشہ ہے خودکشی کے رحجان کو سامنے رکھنا ہوگا ۔ سیکرٹری قانون و انصاف نے بتایا کہ سرعام پھانسی پر پابندی کے بارے میں عدلیہ کا 1994 ء کا فیصلہ بھی موجود ہے ۔ ایسا اقدام نہیں ہونا چاہیے کہ مجرم کو پھانسی دینے کے فیصلہ پر عملدرآمد میں وہ آڑے آ جائے ۔ طریقہ کار کو تبدیل کیا جاتا ہے تو کوئی بھی اسے عدلیہ میں چیلنج کر سکتا ہے ۔ پھانسی کی سزا کا کیس تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے اس معاملے پر وزرات قانون و انصاف سے ایک ہفتے میں تحریری رائے طلب کرتے ہوئے 1994 کے عدالتی فیصلہ کی کاپی بھی مانگ لی ہے ۔