27

سائنس دانوں کا انجیل مقدس میں ذکر ہونیوالے درخت اگانے کا دعویٰ

ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ یروشلم کے قریب ایک صحرائی غار میں پائے جانے والے قدیم بیج سے اُگے درخت سے حاصل شدہ مرکب اس دوا کا ذریعہ ہو سکتا ہے جس کا ذکر انجیل مقدس میں موجود ہے۔

 

دو سینٹی میٹر بڑے اس عجیب و غریب بیج کو جُڈائن صحرا(یوروشلم کے مشرق سے بحیرہ مردار تک پھیلا ہوا صحرا) کی ایک غار سے تقریباً 15 برس قبل دریافت کیا گیا تھا جس کا تعلق 993 سے 1202 عیسوی کے درمیان بتایا جاتا تھا۔ کئی برسوں تک بیج سے پودا اُگانے کی کوشش کے بعد محققین نے اگنے والے پودے کی شناخت کی اور اس کو ’شیبا‘ نام دیا۔

ڈی این اے کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ درخت کومیفورا خاندان کی ایک منفرد نسل سے تعلق رکھتا ہے جو کہ افریقا، مڈاغاسکر اور جزیرہ نما عرب میں پھیلائے گئے تھے اور یہ اپنی خوشبودار گوندھ سے جانے جاتے تھے۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محققین کو شبہ ہے کہ ’شیبا‘ درخت وہ درخت ہے جو بمطابق  انجیل مقدس جنوبی لیونٹ (آج کے جنوبی لبنان، جنوبی شام اور جزیرہ نما سینا) میں اگائے گئے تھے۔

 

اس جوڈائن بام کا تذکرہ چوتھی صدی قبلِ مسیح سے آٹھویں صدی عیسوی کے درمیان ہیلینسٹک، رومی-بازنطینی اور مابعدکلاسیکی ادوار کے ادب میں بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔

اس درخت کی گوند کو (جس کو انجیل کے صحیفوں میں’سوری‘ کہا گیا ہے) قدیم دنیا میں بڑی اہمیت حاصل تھی اور یہ پوری رومی سلطنت میں برآمد کیا جاتا تھا۔

ماضی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اس کی گوندھ کو بطور خوشبو، بخور، موتیا کی دوا کے علاوہ زہر کے تریاق کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔