اکثر افراد قد چھوٹا رہ جانے پر پریشان رہتے ہیں مگر ایسے لوگوں میں عام قامت کے افراد کے مقابلے میں فالج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
یہ بات ڈنمارک میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بچپن میں دیگر ساتھیوں کے مقابلے میں قد میں دو سے تین انچ چھوٹے رہ جانے والے بچوں میں اڈھیر عمری میں فالج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ قد چھوٹا رہ جانے والے مردوں اور خواتین میں فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اس سے قبل برطانوی سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں بتایا تھا کہ چھوٹا قد ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی بڑھاتا ہے۔
ڈنمارک کی اس تحقیق میں 1930 سے 1989 کے درمیان پیدا ہونے والے تین لاکھ سے زائد اسکولوں کے طالبعلموں کے ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ 7، 10 اور 13 سال کی عمر میں اپنے ساتھیوں سے قد میں 2 انچ چھوٹے بچوں میں اڈھیر عمری میں لمبے افراد کے مقابلے میں فالج کا خطرہ 11 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
اسی طرح چھوٹے قد کے افراد میں برین ہیمرج کا خطرہ بھی گیارہ فیصد زیادہ ہوتا ہے تاہم یہ خطرہ خواتین میں نظر نہیں آتا۔
یہ پہلی تحقیق ہے جس میں بچپن کے قد کے مستقبل کی صحت پر اثرات کا جائزہ لیا گیا تاکہ امراض کی روک تھام کی حکمت عملی کو زیادہ بہتر بنایا جاسکے یا کم عمری سے ہی لوگوں کو صحت مند طرز زندگی کے لیے تیار کیا جاسکے۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں کا چھوٹا قد مستقبل میں ممکنہ فالج کے خطرے کی نشانی ہوسکتا ہے اور انہیں مستقبل میں اس جان لیوا مرض سے بچنے کے لیے دیگر عناصر کے حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے، تاکہ اس سے بچ سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صحت بخش غذائیں اور ذہنی تناﺅ سے بچنا بہت ضروری ہے۔
محققین کے مطابق اس کی ممکنہ وضاحت یہ ہے کہ اگرچہ بلوغت میں قد کو بڑھانا تو ممکن نہیں مگر یہ واضح ہے کہ بچپن میں قد کی نشوونما مستقبل کی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔
محققین نے یہ بھی بتایا کہ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں فالج کی شرح میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ وہاں مردوں و خواتین کے قدو قامت میں عمومی اضافہ ہوا ہے۔
تحقیق کے مطابق سات برس کی عمر کا قد مردوں اور خواتین دونوں میں فالج جبکہ مردوں میں برین ہیمرج کے خطرے پر اثرانداز ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل اسٹروک میں شائع ہوئے۔