131

خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں ہزاروں بے روزگار

2018 میں قبائلی علاقے (سابقہ فاٹا) کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہوا تو انگریز دور کے کئی صدیوں پرانے قوانین کا خاتمہ ہوا لیکن دوسری جانب صوبے میں رائج قوانین کو قبائلی علاقوں تک توسیع بھی دی گئی، جس کے بعد کئی قانونی اور انتظامی پیچیدگیوں نے جنم لیا۔

خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں کرشنگ پلانٹس کی صنعت دم توڑنے لگیں، کاروبار کی رجسٹریشن اور دیگر قوانین کے نفاذ سے صرف ضلع خیبر میں 150 سے زائد کرشنگ پلانٹس بند ہوگئے۔ کرپش پلانٹس بندش کے باعث ضلع خیبر میں ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے۔

ترجمان کرش ایسوسی ایشن ضلع خیبر یونس خان کے مطابق کرش پلانٹس بند ہونے سے 8 ہزار سے زائد ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ کام کرنے والے مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں جن کے پاس روزگار کا کوئی متبادل موجود نہیں۔

سخت ضابطے ، رجسٹریشن اور ڈاکومنٹیشن کا پیچیدہ طریقہ کار!

چھوٹے اور درمیانے سطح کے کاروبار کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے نیشنل انفلوئنسرز کے ریسرچر سلیمان یوسفزئی ضلع خیبر میں کرش پلانٹس بندش کی وجوہات سے متعلق بتاتے ہیں۔ ایف سی آر کے تحت چلنے والے کاروباروں کے لیے رجسٹریشن اور پیچیدہ ڈاکومنٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کاروبار کرنے میں آسانی ہوتی تھی۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد کاروبار سے متعلق صوبے میں قائم تمام محکموں نے قبائلی اضلاع میں کام کرنا شروع کر دیا۔ ہر کاروبار کے لیے متعلقہ محکموں سے سرٹیفکیٹس لینا لازمی ہوتا ہے۔

 سلیمان یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اگر کسی کا کرش پلانٹ لگانے کا ارادہ ہو تو متعلقہ محکموں سے اپرول لینا لازمی ہے۔ محکمہ مائنز اینڈ منرلز سے سرٹیفکیٹ لینا ہوتا ہے۔ اسکے بعد ماحول کو آلودہ نہ کرنے کی گارنٹی دینے کے لیے انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے پاس جانا ہو گا، اپروول لینے کے بعد قانونی لوازمات پوری کرنا لازمی ہے لیکن یہ ایک طویل طریقہ کار ہے جس سے وقت اور پیسوں کا ضیاع بہت زیادہ ہوتا ہے۔

دہشت گردی سے متاثرہ سابق قبائلی اضلاع باالعموم اور ضلع خیبر میں باالخصوص شہریوں کےلیے محض ایک سرٹیفکیٹ کے حصول کے لئے لاکھوں روپے بھرنا اورمہینوں انتظار تکلیف دہ عمل ہے، رجسٹریشن کا کام مکمل کرنے میں بھی کئی سال لگ جاتے ہیں، اب ضلع خیبر میں فعال کرش پلانٹس غیر قانونی بن گئے ہیں ، غیر قانونی اسلئے نہیں ہیں کہ وہ غیر قانونی کام کر رہے ہیں لیکن اس کاروبار سے منسلک مالکان این او سیزلینے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے۔

کرشنگ پلانٹ کے لئے این اوسی ناگزیر !

انوائرنمینٹل پرٹیکشن ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر حبیب کہتے ہیں “کرش پلانٹس لگائے جانے سے پہلے این او سیز لینا ہوتا ہے، یہ رولز کا حصہ ہے۔ باوجود اسکے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے این او سیز پر پابندی لگا دی گئی ہے لیکن وہ کچھ وقت کے لیے ہو گا اور پھر دوبارہ این او سیز دینے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ لیکن مجموعی طور پر محکمہ کی جانب سے این او سیز دی جاتی ہیں۔ کرش پلانٹ لگانے والوں کو ہمارے لوازمات اور ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کے تحت آنا پڑے گا۔

ڈاکٹر حبیب کے مطابق اگر کسی کو این او سیز لینے اور لوازمات کے بارے میں پتا نہیں ہوتا تو مانیٹرنگ ٹیمز جا کے اُنکو نوٹسز دیتی ہیں اور آگاہ بھی کرتے ہیں۔ یہ کام اتنا مشکل نہیں اگر کوئی اس پر صحیح طریقے سے عمل کر لے۔ لیکن لوازمات پورا کرنے کے بعد ٹائم پر محکمہ این او سیز دیتا ہے۔

انضمام کے بعد ضم اضلاع میں مائننگ کی صورتحال!

“ضم قبائلی اضلاع میں قانونی طور پر مایننگ کرنا ہوں تو انکو ترجیح دینی ہوتی ہے، وہ دس سال کے لیے ہے۔ یہ کہنا ہے اسسٹنٹ ڈائریکٹر مانیٹرنگ منرل ڈیویلپمنٹ محمد ثاقب کا۔ ان کے مطابق اس ضمن میں اجلاس عام والا پرانا طریقہ اپنایا گیا ہے۔ محکمہ کی کوشش ہے کہ مقامی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مستفید کیا جائے۔ لہذا کرش پلانٹ کے کاروبار یوں کو درکار خام مال کو ہم ان کی آسانی کے لئے لیز آؤٹ کر لیتے ہیں،جبکہ تھوڑی بہت تبدیلی کے علاوہ رجسٹریشن اور محکمہ سے رابطہ کرنے کے لیے وہی پرانا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر ( ڈی سی) سے این او سیز لینا پڑتی ہیں اور آپ ٹیکس پیئر ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ ضم ہونے سے قبل قبائلی علاقوں میں سادہ درخواست پر اپلائی کیا جاتا تھا اب آن لائن درخواست متعارف کروائی گئی ہے۔ جس کے تحت خیبرپختونخوا میں مائننگ کے لیزز وغیرہ کو اب صرف ایک کلک پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مانیٹرنگ اینڈ سرویلنس یونٹ کے کام شروع کرنے کے بعد غیر قانونی مائننگ کرنے میں ملوث 70 سے زائد لوگوں کے خلاف ایف آئی آرز اور مراسلے ارسال کیے گئے ہیں۔”

ان صنعتوں سے وابستہ افراد کے تحفظات ، امیدیں اور مطالبات ؟

ریسرچر سلیمان یوسفزئی کہتے ہیں پانچ سال کے لیے ٹیکس چھوٹ کے وعدے پر کاروباری حضرات من و عن عملدرامد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ٹیکسز کو دوسرا نام دیئے بغیر اُنھیں کاروبار کرنے کی آزادی دی جائے۔ ضلع خیبر میں سینکڑوں میں سے اب صرف 80 سے 100 کرش پلانٹس رہ گئے ہیں، باقی سب بند ہو گئے ہیں۔

کرشنگ پلانٹس سے وابستہ افراد کہتے ہیں کہ انضمام کے بعد حکومت نے ٹیکس چھوٹ کا وعدہ کیا تھا لیکن اب بھی مختلف نام دے کر ٹیکس وصولی کی جا رہی ہے۔ این او سیز لینے کے وقت بھی ٹیکس ریٹرنز مانگے جاتے ہیں، قبائلی علاقہ جات کی انضمام سے پہلے ٹیکس کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ اور انضمام کے بعد حکومت نے ٹیکس چھوٹ دی تھی اسلئے اکثر ریکارڈ موجود نہ ہونے کی وجہ سے این او سیز اور ڈاکومنٹیشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.

پلانٹس مالکان کے مطابق انضمام کے بعد توقع تھی کہ کاروبار میں آسانیاں پیدا ہوں گی لیکن آسانیا ں پیدا ہونے کے بجائے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کرشنگ پلانٹس سمیت مختلف کاروبار سے وابستہ افراد مطالبہ کر رہے ہیں کہ انضمام سے پہلے کیے گئے وعدے پورے کیے جائے، اُنھیں کاروبار کی رجسٹریشنز اور این او سیز اور دیگر لوازمات کو پورا کرنے کے لیے خصوصی ریلیکسیشن دی جائے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو رواں دواں رکھیں۔

کرشنگ پلانٹس کے مالکان کا کہنا ہے کہ ماحول کو آلودہ نہ کرنے اور آبادی سے دور پلانٹس بنانے جیسے لوازمات کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ان پلانٹس کے لیے ایک ایسی جگہ مہیا کریں جو آبادی سے دور ہوں، پلانٹس منتقلی کے لیے موضوں اور خام مال پہنچانے کے علاوہ دیگر سہولیات بھی میسر ہوں تاکہ وہ اپنے کام کو بہتر انداز سے چلا سکیں۔