18

ایڈیشنل ججز کی تقرری کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست خارج

سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تقرری کے خلاف پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کی درخواست خارج کردی۔

جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، سپریم کورٹ نے دو ایک کی اکثریت سے درخواستیں خارج کردیں۔ جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمدعلی نے درخواستیں خارج کیں جبکہ جسٹس اطہرمن اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس فہیم ولی، جسٹس اعجاز خان اور جسٹس کامران حیات کی منظوری دی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہی وہ مجاز اتھارٹی ہیں جو ججز تقرری کی نامزدگی کا حق رکھتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 اے کے تحت کہاں لکھا ہے کہ ججز کی نامزدگی کا اختیار صرف متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو حاصل ہے؟ میں جب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ تھا تو جوڈیشل کمیشن کے ہر رکن سے مشاورت کرتا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا ججز کی تقرری میں اندھا دھند سنیارٹی کے اصول کو دیکھا جائے اور قابلیت کو بالائے طاق رکھیں؟ کیا ججز کی تقرری میں سنیارٹی اصول کے ساتھ میرٹ کو نہیں دیکھنا چاہیئے؟ کیا جوڈیشل کمیشن کے معاملات پر پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری جوڈیشل ریویو کر سکتی ہے؟ کیا پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کو تجویز دے سکتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی صرف جوڈیشل کمیشن کی سفارش کی منظوری کرتی ہے۔

خیال رہے کہ پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری نے ہائیکورٹ کے تین ایڈیشنل ججز کے نام واپس بھجوائے تھے، پشاور ہائی کورٹ نے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کے فیصلے کے خلاف درخواستیں منظور کیں تھیں، سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کی درخواست خارج کردی۔