78

سعودی طالبہ نے اہم طبی دریافت کرلی

کینبرا: سعودی طالبہ نے آسٹریلیا میں ایک اہم طبی دریافت کرتے ہوئے ایسے جین کا پتہ لگایا ہے جو جگر کی بیماری سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔

العربیہ نیٹ کے مطابق آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی میں طائف یونیورسٹی کی طالبہ جواہر الحارثی نے ایک نایاب طبی دریافت کی ہے، یہ دریافت فیٹی لیور کی بیماری کے خطرے کو روکتی ہے اور فیٹی لیور کے مریضوں کرونا کی پیچیدگیوں سے بھی بچاتی ہے۔

تحقیقی مطالعے میں ایسے عوامل کو دریافت کیا گیا ہے جو فیٹی لیور کی بیماری کی پیچیدگیوں کے زیادہ خطرے کا باعث بنتے ہیں۔

ان عوامل پر مزید عمل کر کے ان بیماریوں کے لیے جدید علاج تیار کرنے کا امکان بڑھ گیا ہے، جواہر الحارثی نے اپنی نایاب تحقیقی دریافت کو سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع کروایا ہے۔

سعودی طالبہ جواہر الحارثی نے وضاحت کی کہ یہ نایاب طبی دریافت فیٹی لیور کی بیماری سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور فیٹی لیور کے مریضوں میں کرونا کی پیچیدگیوں کو کم کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے مطالعے کے دوران اہم جینز کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں، ان جینز کی کمی جسم کے افعال میں شدید خرابی پیدا کرتی ہے اور سوزش والی سائٹو کائنز کی بڑھتی ہوئی شرح سے مدافعتی سرگرمی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں کام کرنے والی ٹیم کے ساتھ ایک ایسی ترمیم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہوں جو خلیے میں جین کو اس کی معمول کی سطح پر بحال کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

یہ دریافت مذکورہ بالا بیماریوں کے علاج میں ایک بڑی چھلانگ ثابت ہوگی، یہ ایک نئی طبی کامیابی ہے۔

خاص طور پر چونکہ فیٹی لیور کی بیماری دنیا بھر میں سب سے زیادہ عام بیماریوں میں سے ایک ہے اور دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کو متاثر کر رہی ہے، اس لیے بھی یہ دریافت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک بھی ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں فیٹی لیور کی شرح زیادہ ہے۔

جواہر الحارثی نے مزید کہا کہ میں نے جو تحقیق کی تو میں اس نتیجے پر پہنچی کہ کرونا کے ساتھ فیٹی لیور کے مریضوں میں اموات میں اضافے کی وجہ جینیاتی عنصر ہے، کیونکہ وائرس میں انسان کے جینیاتی میک اپ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ظاہر ہوتی ہے اس کے نتیجے میں بیماری کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور فیٹی لیور کے مریضوں کی حالت بگڑ جاتی ہے۔