کیا آپ جانتے ہیں کہ مقررہ وقت پر کھانے میں تاخیر بالخصوص شام کے کھانے میں دیر سے انسانی بدن میں انتہائی منفی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں۔
موٹاپے کا شکار افراد کے لئے مختلف ریسرچ ہوتی رہتی ہیں جن کے حوصلہ افزا نتائج بھی سامنے آرہے ہیں، ایسی ہی ایک تحقیق ہوسٹن کے وومن اسپتال میں کی گئی۔
برگھم اینڈ وومن اسپتال کے عصبی ماہر فرینک شیر اور ان کے ساتھیوں کا ماننا ہے کہ دیر سے کھانے سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے، بدن میں چکنائی عجیب طرح سے جمع ہوتی ہے اور موٹاپا کم کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس سے کیلوریز(حراروں) کو جلانے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔
مذکورہ تحقیق میں سولہ افراد کو شامل کیا گیا اور ہررضاکار کو دو تجربات سے گزارا گیا جس کے اثرات چھ روز تک برقرار رہے۔ ان کے نیند اور کھانے کے اوقات کو سختی سے مانیٹرکیا گیا اور کئی ہفتوں بعد تجربات دوبارہ دہرائے گئے۔
تجربے میں شرکا سے سختی سے کہا گیا کہ وہ دن کے تین کھانوں کے اوقات پر سختی سے عمل کریں یعنی صبح نو بجے ناشتہ، ظہرانہ ایک بجے اور عشائیہ چھ بجے کھائیں۔
دوسرے تجربے میں کھانوں کے اوقات تبدیل کئے گئے ، ناشتے کا وقت دن ایک بجے کیا گیا جبکہ آخری کھانا رات نو بجے دیا گیا۔
اس دوران شرکا سے سوالات بھی پوچھے گئے اور خون کے نمونے بھی لیے گئے، دیر سے کھانے والے افراد میں لیپٹن ہارمون کی مقدار چوبیس گھنٹے کے لئے کم ہوگئی کیونکہ یہ ہارمون ہمیں پیٹ بھرنے کا احساس دلاتا ہے۔
دوسری جانب بدن میں حراروں کی تلفی کی شرح بہت سست پڑگئی جو موٹاپے کی دوسری بڑی وجہ بھی ہے۔
ایک اور ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ایڈیپوز ٹشو جین ایکسپریشن (اظہار) بھی متاثر ہوا جو جسم میں چربی جمع ہونے میں خاص کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح بافتوں کی چربی جمع ہونے کا رحجان بڑھنے لگتا ہے۔ اس طرح پہلی مرتبہ کھانے میں تاخیرکے فعلیاتی اور خلیاتی و سالماتی سطح پر تبدیلیوں کے ٹھوس ثبوت ملے ہیں۔
یہ ابتدائی تحقیق ہے جس میں محدود افراد کو شامل کیا گیا، طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج جانچنے کے لئے رضاکاروں کی بڑی تعداد کو شامل کیا جائے۔