314

فالج کے علاج میں معاون ایک نئی انقلابی ٹیکنالوجی

سٹینفورڈ: اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے فالج کی درست نشاندہی اور علاج میں مددگار ایک ٹیکنالوجی تیار کی ہے جس سے فالج کے شکار لاکھوں مریض استفادہ کرسکیں گے۔

اگر کوئی مریض سوتے میں فالج کا شکار ہوجائے یا پھر فالج کے بعد طبی مدد میں دیر ہوجائے تو بہت دیر ہوجاتی ہے۔ کیونکہ فالج پڑنے کے بعد ابتدائی چھ گھنٹے بہت اہم ہوتے ہیں۔ دماغ میں خون کے لوتھڑے کو گھلانے والی دوائیں بھی اپنا اثر دکھانے میں بہت وقت لگاتی ہیں۔ اس طرح نیند میں اس کے شکار ہونے والے افراد چھ گھنٹے گزار چکے ہوتے ہیں اور فالج اپنا حملہ پورا کرچکا ہوتا ہے۔

اسٹیفرڈ اسٹروک سینٹر  کے سربراہ ڈاکٹر گریگری ایلبرز کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم کی تیارکردہ نئی ٹیکنالوجی چھ گھنٹے کے اندر اندر علاج کی اس ضرورت کے باوجود فالج کے مزید خطرات دور کرسکتی ہے۔ انہوں نے کمپیوٹر ٹوموگرافی (سی ٹی) امیجنگ سسٹم کی بنیاد پر دماغی تصویرنگاری کی ایک ٹیکنالوجی تیار کی ہے جسے ’’ریپڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کی مدد سے  دماغ میں فالج کے متاثرہ مقام کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ اس میں دماغ کے تمام حصوں کو مختلف رنگوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر کسی صحت مد مقام پر جریانِ خون (ہیمریج) کا خطرہ ہو تو وہ اسکین میں سبز دکھائی دے گا، جبکہ گہرا سبز زیادہ ہیمرج کو ظاہر کرے گا۔ اسے دیکھتے ہوئے ڈاکٹر دماغ میں تار ڈال کر وہاں موجود خون کے لوتھڑے کو نکال باہر کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر ایلبرز کے بقول اس عمل کو کئی مریضوں پر کامیابی سے آزمایا گیا اور اس میں سے نصف مریضوں کے دماغ میں خون کے لوتھڑے ختم کردیئے گئے اور وہ کچھ روز بعد کسی معذوری کے بغیر اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔

اس طریقے کے نتائج اتنے حوصلہ افزا ہیں کہ امریکی فالج (اسٹروک) سوسائٹی نے فالج کے چھ گھنٹے کے اندر طبی سہولیات کے دورانیے کو بڑھا کر 24 گھنٹے تک کردیا ہے تاہم یہ نئی رہنما ہدایات تمام مریضوں کےلیے نہیں۔