31

سیلاب اور بارشوں سے سیکڑوں قبرستان زیر آب، مرنے والوں کی تدفین مسئلہ بن گئی

لاہور: حالیہ بارشوں اور سیلاب سے کئی علاقوں مین سیکڑوں قبرستان بھی پانی میں ڈوب گئے جس کے باعث مرنے والوں کی تدفین بھی مشکل ہوگئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے جہاں پنجاب کے مختلف اضلاع میں جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہیں کئی متاثرہ علاقوں سینکڑوں قبرستان بارش اور سیلاب کے پانی میں ڈوب چکے ہیں اور ان علاقوں میں مرنے والوں کی تدفین میں بھی مشکلات آرہی ہیں۔

 

راجن پور کی تحصیل جام پور کے علاقے میراں پور کا مرکزی قبرستان زیر آب آچکا ہے، اس قدیم قبرستان میں سینکڑوں قبریں ہیں جو کئی روز سے پانی میں ڈوب چکی ہیں۔

 

 

Advertisement

 

میراں پور سمیت دیگرعلاقوں میں بھی یہی حالات ہیں مقامی آبادیوں کے ساتھ ساتھ قبرستان بھی زیر آب ہیں اور ان علاقوں میں جاں بحق ہونیوالوں کی تدفین ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔

مقامی رہائشی شیر محمد نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی آبادی، کھیت، کھلیان اور قبرستان سب پانی میں ڈوب چکے ہیں، اپنی مدد آپ اور ریسکیو اداروں کے تعاون سے متاثرہ دیہات سے مکینوں کو تو محفوط مقامات تک منتقل کیا جاچکا ہے لیکن ہم اپنے پیاروں کی قبروں کو تو ساتھ نہیں لے جاسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قبرستان میں ان کے دادا اور والدہ سمیت خاندان کے کئی افراد کی قبریں ہیں جو سب پانی میں ڈوبی ہیں، شیر محمد نے افسردہ لہجے میں بتایا ” جب سیلاب کا پانی اترے گا توتب دیکھیں گے ان کے پیاروں کی قبروں کی کوئی نشانیاں باقی ہیں یاسب کچھ ختم ہوگیا ہے۔

راجن پور سے تعلق رکھنے والے طارق گشکوری نے بتایا بارشوں اور سیلاب کے دوران کئی افراد کی موت ہوئی ہے، ہمارے لئے ان کی تدفین ایک بڑا مسئلہ ہے، مرنیوالے کے خاندان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تدفین ان کے آبائی قبرستان میں خاندان کے دیگرافراد کی قبروں کے ساتھ کی جائے لیکن جب قبرستان ہی پانی میں ڈوب چکے ہیں تو پھر تدفین وہاں تو نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے بتایا کہ ہم اس وقت جس محفوظ علاقے میں قیام پزیر ہیں یہاں پانچ افراد کو امانتا دفن کیا گیا ہے، سیلاب کا پانی ختم ہونے کے بعد ان میتوں کو یہاں سے نکال کر دوبارہ ان کے علاقے کے قبرستان میں دفن کریں گے۔

دوسری طرف پرونشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) کے ترجمان تصورچوہدری نے بتایا پنجاب خاص طور پر ڈی جی خان اور راجن پور میں مون سون بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے مجموعی طور پر 6 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل 32 یونین کونسلوں کے 310 موضع جات ( دیہات/قصبے) متاثرہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہر گاؤں اورقصبے میں ایک قبرستان ضرورہوتا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے صرف جنوبی پنجاب کے دواضلاع میں سیلاب سے 300 سے زائد قبرستان بھی متاثر ہوئے ہیں۔

ایکسپریس سروے کے مطابق زیادہ تر قبرستان آبادی سے باہر ہی بنائے جاتے ہیں اور اکثر قبرستان چار دیواری سے محروم ہیں جس کی وجہ سے سیلاب کے علاوہ معمول کی بارشوں میں بھی قبرستانوں میں پانی جمع ہوتا ہے ،اسی طرح بڑے شہروں میں تو قبرستانوں کی دیکھ بھال محکمہ بلدیات کے ذمہ ہے لیکن چھوٹے شہروں اور قصبوں میں قبرستانوں کی دیکھ بھال مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہی کرتے ہیں

سابق کشمنر ڈیرہ غازی خان عثمان انور نے ایکسپریس کو بتایا کہ کوہ سلیمان کی پٹی کے ساتھ زیادہ تر لوگ قبیلوں میں رہتے ہیں اور یہ اپنے عزیزوں کی تدفین بھی اپنے قبیلوں کے مختص قبرستانوں میں ہی کرتے ہیں، تاہم اب چونکہ قبرستان پانی میں ڈوب چکے ہیں تو مرنیوالوں کی تدفین دوسرے مقامات پرکی گئی ہے۔ ممکن ہے سیلاب کا پانی اترنے کے بعد میتوں کو نکال کرواپس اپنے آبائی قبرستانوں میں دفن کردیا جائے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور میں 80 فیصد سے زائد قبرستان چار دیواری اور سہولتوں سے محروم ہیں، ضلع لاہور میں مجموعی طور پر 845 قبرستان ہیں جبکہ چار بڑے سرکاری قبرستانوں کی تعمیر التوا کا شکار ہے۔

گزشتہ بجٹ میں قبرستانوں کی بحالی اور تعمیر و مرمت کے لئے تقریبا چار ارب روپے کے فنڈز مختص کئے گئے تھے لیکن وہ فنڈز استعمال نہ ہوسکے ۔

محکمہ بلدیات کے چیف انجینئر اجمل ملک کا کہنا ہے کہ شہر کے قبرستانوں کے ورکنگ پیپر اور فنڈز موجود ہیں، بہت جلد قبرستانوں کی بحالی اورمرمت کاکام مکمل کیا جائیگا۔