32

سیلاب، امداد اور حفاظت

پاکستان کو اس وقت بدترین سیلاب کا سامنا ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق 110 اضلاع اور 31 لاکھ نفوس متاثر ہوچکے ہیں۔ اندازاً 7 لاکھ عمارتوں یا گھروں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ ایک ہزار لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں، آٹھ لاکھ مویشی بہہ گئے۔ درجنوں پل اور سڑکیں بہہ چکی ہیں، ایکٹروں پر مشتمل اراضی اور فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک نو سو ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔

پاکستان کے طول و عرض میں گویا ہنگامی صورت حال ہے۔ یہ صورت حال یا سیلاب کوئی خدائی عذاب نہیں ہے بلکہ اس کے عوامل انسانی و زمینی ہیں۔ پاکستان میں اس سے قبل 2010 اور 2012 میں بھی سیلاب آچکے ہیں۔ سیلاب کی اس شدت میں جن امور کی ضرورت ہے وہ فوری امداد اور طویل المدتی حفاظتی اقدام ہیں۔

فوری امداد

(1) جو لوگ سیلاب سے متاثر ہوکر گھر بدر یا علاقہ بدر ہوچکے ہیں، ان کو فوراً خالی سرکاری عمارتوں (مثلاً جو اسکول، کالج گرما کی تعطیلات کے باعث بند و خالی ہیں) میں منتقل کیا جائے۔

(2) دیگر سرکاری عمارات مثلاً سرکاری ریسٹ ہاؤس، گیسٹ ہاؤس، قیام گاہوں، مسافر خانے، پناہ گاہوں کو ان افراد کی رہائش کےلیے کھولا جائے۔

(3) بے گھر افراد کو بارش کی صورت میں قریبی مساجد و مدارس میں منتقل کردیا جائے۔

(4) وہ افراد و خاندان جو شہروں میں مقیم ہیں اور ان کے متعلقین متاثرہ علاقوں میں ہیں، ان کو بمطابق استطاعت اپنے ہاں رہائش فراہم کریں۔

جب متاثرہ افراد کا باقاعدہ ایک انتظام کرلیا جائے تو ان کی دیگر ضروریات کی تکمیل اور امداد باآسانی کی جاسکتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ بے ہنگم و بے نظم صورت امدادی امور اور تقسیم مال میں رکاوٹ ڈالتی ہے اور بہت سے لوگ اس صورت میں ضرورت سے زائد حاصل کرلیتے ہیں اور کچھ بقدر ضرورت بھی حاصل نہیں کرپاتے۔

(5) مختلف تنظیموں اور حکومتی اداروں کو جو امدادی سامان و رقوم موصول ہوں، اس کو ہر علاقے میں مقامی انتظامیہ کے تحت تمام متاثرین میں مساوی طور پر تقسیم کیا جائے۔

(6) متاثرین کی قیام گاہوں میں مقامی حکومتی انتظامیہ (یا رفاہی جماعتوں کی مقامی انتظامیہ) اپنی نگرانی میں لنگر کا اہتمام کرے تاکہ تمام متاثرین کو مساوی طور پر تین وقت کا کھانا میسر ہوسکے۔

(7) وہ افراد جو ذاتی حیثیت میں امدادی عمل میں شریک نہیں ہوسکتے وہ استطاعت کے مطابق عام ضرورت کی اشیاء (مثلاً غذائی اجناس، کپڑے، جوتے، خیمے یا نقدی وغیرہ) متعلقہ انتظامیہ کو فراہم کریں۔

حفاظتی اقدام

(1) دریا، ندی اور نالوں کے اطراف تمام آبادی یا تعمیرات پر پابندی لگائی جائے۔

(2) ندی نالوں کی صفائی کا انتظام کیا جائے، ان کو مزید گہرا اور (جہاں ممکن ہو) کشادہ کیا جائے۔ دریائی بند مزید مضبوط کیے جائیں۔

(3) پلوں کو دریا کی موجودہ بلندی سے مزید بلندی پر تعمیر کیا جائے تاکہ دریا کی طغیانی یا معمولی و درمیانی درجے کے سیلاب سے پلوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔

(3) گاؤں، دیہاتوں کی شاہراہوں کے دونوں اطراف پتھر یا کنکریٹ کی مضبوط دیواریں قائم کی جائیں تاکہ لینڈ سلائیڈنگ اور شاہراہوں کے بہنے جیسے واقعات کو کم سے کم کیا جاسکے۔

(4) شہری علاقوں میں سیوریج کو مزید موثر و کشادہ کیا جائے تاکہ نکاسی آب کی قابلیت میں اضافہ ہو اور سڑکوں اور رہائشی علاقوں میں پانی جمع نہ ہونے پائے۔

(5) صوبائی حکومتوں کی طرف سے ہر صوبے میں نئے چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے جائیں۔

قدرتی آفات انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں، ان کو روکنا تو ممکن نہیں البتہ بہتر تدابیر اور حسن انتظام سے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔