105

سیلابی صورت حال؛ ملک بھر میں مزید 22 افراد جاں بحق ، متعدد لاپتہ

ملک بھر میں رواں مون سون بارشوں کے باعث ہر جانب سیلابی صورت حال ہے اور لاکھوں متاثرین امداد کے منتظر ہیں۔

رواں برس کے اوائل میں غیر معمولی خشک سالی کے بعد مون سون سیزن کے دوران ملک بھر میں غیر متوقع بارشوں کے باعث صورت حال انتہائی خوفناک ہوگئی ہے۔

چترال سے گوادر اور جہلم سے کراچی تک بارشوں اور سیلابی ریلوں نے ہر جانب تباہی مچارکھی ہے اور ہرگزرتے دن کے ساتھ مشکلات بڑھنے لگی ہیں۔

صوبہ پنجاب میں وقفے وقفے سے بارشیں جاری ہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 25 اگست کی صبح 10 بجے تک سب سے زیادہ بارش خان پور میں 42 ملی میٹر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد، رحیم یار خان اور مری میں 26، جوہر آباد اور سیالکوٹ میں 25، راولپنڈی اور منڈی بہاؤالدین 18،اٹک 17، سرگودھا 15، بھکر 13، نارووال 10، لیہ 08 جب کہ لاہور میں زیادہ سے زیادہ بارش 05 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔

پنجاب میں بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ تباہی جنوبی علاقوں میں ہوئی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات بڑھنے لگی ہیں۔

تونسہ کی متاثرہ بستیوں کا زمینی رابطہ 10 روز سے منقطع ہے اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہو چکی ہے۔

راجن پور شہر کا 80 فی صد حصہ ڈوب چکا ہے جب کہ ڈیرہ غازی خان میں نالہ وڈور میں آنے والا منہ زور سیلابی ریلا متعددچھوٹے حفاظتی بند بہا لےگیا اور مزید درجنوں بستیاں ڈوب گئی ہیں۔

پاک فوج مشکل میں گھرےعوام کی مدد کے لیے میدان میں آ گئی ہے اور متاثرہ علاقوں میں بذریعہ ہیلی کاپٹر راشن اور دیگر سامان کی فراہمی جاری ہے۔

خیبر پختونخوا

خيبرپختونخوا ميں بھی شديد بارشوں اور سيلابی پانی کی وجہ سے مشکلات کي برسات جاری ہے۔

24 گھنٹوں میں بونیر، لکی مروت، لوئر دیر، لوئر کوہستان اور شمالی وزیرستان میں سیلابی ریلوں میں ڈوب کر مزید 7 جبکہ چھتیں منہدم ہونے سے دو افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔

صوبے کے 7 اضلاع میں اسکول اور دفاتر بند کردیئے گئے ہیں، محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا کے مطابق اپر چترال میں 10، لوئر چترال میں 5، ٹانک اور دیر لوئر میں 3 جب کہ دیر اپر، سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان میں 2 روز کے لیے اسکول بند کردیئے گئے ہیں۔

مسلسل بارش کے باعث دریائے سوات کا مزاج بھي بگڑتا جارہا ہے۔ لينڈ سلائيڈنگ کي وجہ سے سوات ایکسپریس وے کو دوطرفہ ٹریفک کے لئے بند کردیا گیا۔

سوات کالام سڑک اثریت اور پشمال کے مقام پر ٹریفک کے لیے بند ہے جس سے مقامی افراد اور سیاحوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

سوات کے شہر مينگورہ ميں بےرحم سيلابی ريلے نے سب کچھ ملياميٹ کرديا۔ بدترين تباہی کے بعد منہ زور پانی اب کالام روڈ پر موجود ہے۔

جنوبی وزیرستان ميں بھی سیلابی ریلے نے تباہی مچا رکھی ہے، وانا کو ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملانے والی سڑکیں بند ہیں، ڈبرہ کے مقام پر درجنوں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل کان کی تحصيل کلاچی کے گاؤں کوٹ ولی داد، ہتھالہ، گاؤں بڈھ اور دیگر دیہاتوں میں درجنوں کچے گھر گر گئے اور لوگ بےسروسامانی کے عالم میں حکومتی امداد کی راہ تک رہے ہيں۔

کوہستان کے علاقے دوبیر بالا میں 5 افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ ایک کو بچالیا جب کہ 4 افراد کی تلاش جاری ہے۔ دير ميں بہنے والے پانچ ميں سے دو بچے اب تک نہيں مل سکے۔

ايبٹ آباد ميں مسلسل بارشوں کے بعد پاني گھروں اور دکانوں ميں داخل ہوگيا ہے۔ ضلع لکی مروت میں بھي تباہی کی الگ داستان ہے ، ارسلا پل بہنے سے خیبر پختونخوا کو پنجاب اور سی پیک سے ملانے والی شاہراہ مکمل بند ہوگئی ہے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو ملانے والی ژوب دانہ سر روڈ ایک ہفتے سے زائد عرصے سے بند ہے جس کی بحالی کے لئے کام جاری ہے لیکن لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بحالی کا کام سست روی کا شکار ہے۔

بلوچستان

بلوچستان میں مون سون کے پانچویں اسپیل نے بھی گزشتہ 4 اسپیلز کی طرح تباہی مچارکھی ہے۔ صوبے کے بیشتر اضلاع میں وقفے وقفے سے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔

کوہلو اور خضدار کے مختلف علاقوں میں شدید بارشوں کے باعث مزید درجنوں کچے مکانات منہدم ہو گئے ہیں اور مقامی انتظامیہ کے پاس خیمے ختم ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے متاثرین کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں۔

ڈیرہ الہیار، سبی اور دیگر اضلاع میں ہزاروں لوگ سیلاب میں محصور ہیں۔

کوئٹہ کےعلاقے نواں کلی بائی پاس میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا، متاثرین نے انتظامی روئیے کے خلاف روڈ بلاک کرکے احتجاج کیا۔

کوئٹہ اور بولان کے درمیان 12 انچ قطر کی ایک اور گیس پائپ لائن سیلابی ریلے میں بہہ جانے کے باعث مستونگ، قلات، پشین اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کو گیس کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔

19 اگست کو بھی 24 انچ قطر کی گیس پائپ لائن کو سیلابی ریلے سے سخت نقصان پہنچا تھا جس کا مرمتی کام اب تک مکمل نہیں ہوسکا۔

مچھ اسٹیشن کے قریب ریلوے پل کا ایک حصہ ٹوٹ گیا ہے جس کے بعد اب کوئٹہ کا ملک بھر سے ریل رابطہ ایک ماہ کے لئے مزید کٹ گیا ہے۔

سی ای او ریلوے فرخ غلزئی کا کہنا ہے کہ پل کی بحالی تک پشاور اور کراچی سے کوئٹہ جانے والی ٹرینیں سبی تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٹریک کی بحالیئ کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام این ایل سی کے حوالے کیا جائے گا۔

سندھ

سندھ میں بھی مون سون اسپیل کا پانچواں اسپیل قیامت ڈھا رہا ہے، چوتھے اسپیل کا پانی ابھی نکلا نہیں تھا کہ گزشتہ 2 روز سے جاری بارش نے مزید پریشانی بڑھا دی۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سندھ میں سب سے زیادہ نواب شاہ کے نواحی قصبے سکرنڈ میں 220 ملی میٹر بارش ہوئی ہے، شہید بے نظیر آباد میں 137، لاڑکانہ 130، موئن جوداڑو116، خیرپور اور پڈعیدن 115، دادو 80، سکھر 39، حیدرآباد 27، روہڑی 26، ٹنڈو جام 25، چھور23، کراچی میں سب سے زیادہ 15، مٹھی میں 08 اور ٹھٹہ میں ایک ملی میٹر بارش ہوچکی ہے۔

سندھ میں بارش اور سیلابی ریلے کسی کو خاطر نہیں نہیں لارہے، پانی چھوٹی بڑی تمام آبادیوں کو نگل رہا ہے۔

پروانشل ڈیزازٹر منیجمنٹ اتھارٹی سندھ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں صوبے میں سیلاب کی وجہ سے مزید 13 افراد لقمہ اجل بن گئے جس کے بعد اب تک سندھ بھر میں مجموعی طور پر 306 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

خيرپور میں متاثرین نے خانواہ نہر کا پُشتہ توڑ دیا گیا جس کے باعث تحصيل ٹھری میرواہ ڈوب گئی، 4 روز سے ٹھری میرواہ تحصیل کا زمینی راستہ ملک بھر منقطع ہے جب کہ امدادی سرگرمیاں تاحال شروع نہیں ہوسکیں۔

دادو اورموروکے کچے میں بھی کئی دیہات زیرآب آگئے ، ککڑ کے قریب گاؤں مرید ببر کا رنگ بند ٹوٹنے کے بعد ریلا قریبی بستیوں کی خبر لینے بڑھ رہا ہے۔

قائم مقام گورنر سندھ آغاسراج درانی کے شہر کی مرکزی شاہراہ سرکولر روڈ پر پانچ سے سات فٹ پانی جمع ہے، شہریوں کواسٹیشن روڈ یا دیگر علاقوں میں جانے کے لئے کشتی پر سفر کرنا پڑ رہا ہے۔

سانگھڑ کی ہر گلی اور محلہ تالاب کا منطر پیش کررہی ہے، ٹنڈوالہ یار میں امداد نہ ملنے پر متاثرین احتجاج پر مجبور ہوگئے ہیں۔

عام حالات میں پانی کے لئے میلوں کا سفر کرنے والے تھر کے باسی بارشوں کے باعث سیم نالے میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ جانے کی وجہ نقل مکانی کا شکار ہیں۔