41

الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے رعشہ ختم کرنے کا کامیاب تجربہ

شکاگو: اطالوی اور امریکی سائنسدانوں نے دماغی آپریشن کی جگہ خاص طرح کی الٹرا ساؤنڈ لہریں استعمال کرتے ہوئے پارکنسن اور دیگر دماغی امراض کے باعث ہاتھوں اور دوسرے جسمانی حصوں میں رعشہ کا کامیاب علاج کیا ہے۔

اس کامیابی کی تفصیلات گزشتہ دنوں شکاگو میں منعقدہ ’’ریڈیولاجیکل سوسائٹی آف نارتھ امریکا‘‘ کے سالانہ اجلاس میں پیش کی گئیں۔

رعشے کے اس علاج میں جسے ’’الٹرا ساؤنڈ تھراپی‘‘ بھی کہا جاتا ہے، دماغ کے ایک حصے ’’تھیلیمس‘‘ میں ایک مختصر سے مقام کو آواز کی مرکوز لہروں سے گرم کرکے تباہ کیا جاتا ہے (کیونکہ یہ مقام ہی رعشے کی وجہ بنتا ہے)۔

واضح رہے کہ الٹرا ساؤنڈ درحقیقت آواز ہی کی لہریں ہوتی ہیں مگر ان کی فریکوینسی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ انسانی کان انہیں سن نہیں سکتے، جبکہ ’’رعشہ‘‘ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں عام طور پر ہاتھ اور بازو لرزنے لگتے ہیں۔ البتہ، رعشے کی بعض اقسام ایسی بھی ہیں جن میں متاثرہ فرد کا بالائی دھڑ بھی لرزنے لگتا ہے اور وہ شدید اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

پارکنسن یا کسی دوسری دماغی تکلیف کی وجہ سے پیدا ہونے والے رعشے کا علاج عام طور پر دماغی سرجری سے کیا جاتا ہے جس میں کھوپڑی کے اندر باریک سوراخ کرکے دماغ کے متعلقہ حصے میں باریک الیکٹروڈز اتارے جاتے ہیں جو وہاں پر موجود، رعشہ کی وجہ بننے والے حصے کو بجلی کے جھٹکوں سے ناکارہ بنا دیتے ہیں۔ تاہم، دماغی آپریشن کا یہ عمل بہت خطرناک ہوتا ہے جس میں ناکامی کا خطرہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اس کے مقابلے میں الٹرا ساؤنڈ کا استعمال خاصا آسان ہے، لیکن یہ بھی کچھ کم مہنگا نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں دماغ کے تھیلیمس پر الٹراساؤنڈ لہروں کی رہنمائی کرنے کےلیے مقناطیسی گمگ (میگنیٹک ریزونینس) کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے آلات بہت مہنگے ہیں۔ اسی بنا پر یہ ٹیکنالوجی ’’میگنیٹک ریزونینس گائیڈڈ فوکسڈ الٹرا ساؤنڈ‘‘ (MRgFUS) کہلاتی ہے۔ اگرچہ آج یہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہے لیکن پھر بھی اس میں کامیابی کی شرح بہت زیادہ ہے جبکہ خطرات نہایت کم۔

اگرچہ یہ ٹیکنالوجی آج سے دس سال پہلے وضع کرلی گئی تھی لیکن ایف ڈی اے سے اجازت ملنے کے بعد اس کی آزمائشیں 2015 سے شروع کی گئیں جن میں اس ٹیکنالوجی کو رعشے میں مبتلا مریضوں پر آزمایا جارہا تھا۔ مطالعے کی غرض سے الٹرا ساؤنڈ پر مبنی علاج کو ایسے 39 افراد پر آزمایا گیا جن کی اوسط عمر 64 سال تھی جبکہ وہ سب کسی نہ کسی وجہ سے شدید رعشے میں مبتلا تھے۔ ان سب کی یہ کیفیت کم از کم پچھلے دس سال سے تھی جبکہ اس دوران انہیں کسی علاج سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا تھا۔

الٹرا ساؤنڈ کے استعمال سے ایک طرف تو ان مریضوں کا رعشہ فوری طور پر خاصا کم ہوگیا بلکہ، ایک بار اس عمل سے گزرنے کے بعد، آئندہ تین سال تک بھی ان میں رعشہ بہت کم رہا۔ علاوہ ازیں، اس علاج کے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) بھی خاصے معمولی نوعیت کے رہے۔

چونکہ اس ٹیکنالوجی میں الٹرا ساؤنڈ اور ایم آر آئی مشین کو یکجا کیا گیا ہے، اس لیے فی الحال یہ بہت مہنگی ہے۔ لیکن امید ہے کہ آنے والے برسوں میں اسے مزید بہتر اور کم خرچ بنا کر رعشے کے علاج میں اہم پیش رفت کی جاسکے گی۔