128

چپ پر پلکوں والی، جھپکتی ہوئی آنکھ ​​​​​​​

پنسلوانیا: ایک دلچسپ لیکن اہم طبی کامیابی حاصل کرتے ہوئے سائنسدانوں نے چپ پر ایک ایسی مصنوعی آنکھ تیار کرلی ہے جس میں پلکیں ہیں اور وہ جھپکنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ لیکن یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ اس کا مقصد انسانی آنکھوں کےلیے تیار کردہ نئی دواؤں کو حقیقت سے قریب تر ماحول میں آزمانا ہے کیونکہ اس مصنوعی آنکھ میں انسانی آنکھ کے خلیات شامل کیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ کسی بھی نئی دوا کے طور پر استعداد رکھنے والے کسی مرکب (کیمیکل) کی دریافت سے لے کر اس کے بطور دوا منظور ہونے تک میں کم از کم دس سال لگ جاتے ہیں کیونکہ اسے مختلف مراحل سے لازماً گزارا جاتا ہے جن میں وہ پیٹری ڈش میں رکھے زندہ خلیات سے لے کر جانوروں پر، اور سب سے آخر میں انسانوں پر آزمائی جاتی ہے۔ اگر کسی نئی دوا کو آزمانے کے یہ درمیانی مراحل مختصر ہوجائیں اور براہِ راست انسانی آزمائش تک پہنچا جاسکے تو اس میں نہ صرف وقت کی بڑی بچت ہوگی بلکہ کسی نئی دوا کی تیاری پر آنے والی خطیر لاگت بھی خاصی کم کی جاسکے گی، جو فی الحال 80 کروڑ ڈالر سے ایک ارب ڈالر کے درمیان ہوسکتی ہے۔

’’چپ پر تجربہ گاہ‘‘ (لیب آن چپ) کے عنوان سے شہرت رکھنے والے تحقیقی شعبے کو آج چالیس سال ہوچکے ہیں جبکہ اس میدان میں پیش رفت کی بدولت طبّی تشخیص و تحقیق کے کئی آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو بہت مختصر بھی ہیں۔ حالیہ پیش رفت کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھنا چاہیے۔

’’نیچر میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں تفصیلات کے مطابق، یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ماہرین نے کئی سال کی محنت کے بعد چپ پر مصنوعی آنکھ تیار کرلی ہے جس میں انسانی آنکھ کے زندہ خلیات موجود ہیں جبکہ یہ پلکوں سے بھی لیس ہے۔ فی الحال اس پر خشک آنکھوں کی بیماری کے علاج کےلیے تیار کردہ ایک نئی دوا کے تجربات کیے گئے ہیں؛ اور اس کے نتائج بالکل وہی ہیں جیسے اصلی آنکھ پر یہ دوا استعمال کرنے پر رونما ہوسکتے ہیں۔

دوا ڈالنے پر ان مصنوعی پلکوں کے جھپکنے کا انداز بالکل ویسا ہوتا ہے جیسا حقیقی انسانی آنکھ کا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ دوا جانوروں پر آزمانے کی ضرورت تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے آنکھ کی دیگر بیماریوں کےلیے تیار کی گئی نئی دوائیں آزمانے میں استعمال کیا جائے گا۔