75

ڈومور کو ذہن سے نکال دیں، پاک-امریکا تعلقات معمول پر آگئے، دفتر خارجہ

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات معمول پر آگئے ہیں، لوگ ڈومور کو ذہن سے نکال دیں، تعلقات میں کچھ ان کے مفادات ہیں، کچھ ہمارے اور ہم اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر آگے بڑھیں گے۔

ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے امریکا کا پہلا کامیاب ترین دورہ مکمل کرلیا، سال 2015 کے بعد امریکا اور پاکستان کے درمیان یہ پہلا اعلیٰ سطح کا رابطہ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات معمول پر آگئے ہیں، ڈومور کا لفظ ذہن سے نکال دیں، امریکیوں نے بھی ڈومور کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے پہلے سرکاری دورے پر امریکا گئے تھے، جہاں انہوں نے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ، سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو، دیگر امریکی نمائندگان سمیت پاکستانی کمیونٹی سے بھی ملاقات کی تھی۔

عمران خان کے اس دورے میں زیادہ تر توجہ افغان امن عمل پر رہی تھی اور پاکستان نے اس عمل میں اپنے ہرممکن کردار کی یقین دہانی کروائی تھی۔

بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار سہولت کاری کا ہے اور امریکی صدر نے علاقائی امن کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا ہے جبکہ پاکستان کے کردار کو دیگر ممالک نے بھی تسلیم کیا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دی گئی دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرلی ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات نئے سرے سے استوار ہوچکے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کے حوالے سے ابتدائی معلومات امریکا کو فراہم کی تھیں تاہم انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے اسامہ بن لادن سے متعلق سینٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کی کوئی مدد کی اس کی تصدیق یا تردید نہیں کرتا۔

واضح رہے کہ دورہ امریکا کے دوران امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ امریکا اور پاکستان ایک دوسرے کے اتحادی تھے، امریکا کو اسامہ بن لادن سے متعلق پاکستان کو معلومات فراہم کرنی چاہئیں تھی جس کے بعد پاکستانی اداروں کو انہیں پکڑنا چاہیے تھا تاہم امریکا نے پاکستان پر بھروسہ نہیں کیا اور ہماری حدود کے اندر داخل ہوکر 'ایک شخص' کو قتل کیا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے باور کرایا تھا کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی کے حوالے سے ابتدائی معلومات آئی ایس ایس نے ہی فراہم کی تھی، اگر آپ سی آئی اے سے پوچھیں تو یہ آئی ایس آئی ہی تھی جس نے فون کنکشن کے ذریعے اسامہ کی موجودگی کی معلومات فراہم کی تھیں۔

کشمیر کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر میں ثالثی کی پیشکش کی لیکن بھارت گفتگو کے لیے تیار نہیں ہے، بھارت کو کشمیر کے لیے پختہ سوچ اپنانا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ آگے بڑھنے کا راستہ صرف بات چیت ہے، گفتگو ہوگی تو معاملات آگے بڑھیں گے، بھارت کی سمجھ میں یہ بات آجائے چاہے امریکی صدر کے سمجھانے سے آئے۔

ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ بھارت خود بھی کشمیر کو ایک تنازع تسلیم کرتا ہے چاہے ایک بند کمرے میں ہی کیوں نہ کرے، تاہم وہ گفتگو کے لیے تیار نہیں ہے جبکہ پاکستان کا موقف امن اور بات چیت ہی ہے۔

اس دوران دفتر خارجہ کے ترجمان نے بریفنگ میں مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور ظلم کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم بند کروائے۔

یاد رہے کہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر اور عمران خان کی ملاقات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیش کش کی تھی۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ بھارت کی جانب سے بھی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا گیا تھا۔

امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’دو ہفتے قبل ان کی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ کیا آپ مصالحت کار یا ثالث بننا چاہیں گے تو میں نے پوچھا کہاں، جس پر انہوں نے کہا کہ کشمیر پر کیونکہ یہ مسئلہ کئی برسوں سے ہے’۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’وہ یہ جان کر حیران ہوئے کہ یہ مسئلہ طویل عرصے سے موجود ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ اس کو حل کریں گے اور انہیں ثالث بن کر خوشی ہوگی‘۔

کلبھوشن کو قونصلر رسائی کیلئے بھارت کو آگاہ کردیا

علاوہ ازیں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی کے لیے بھارت کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف نے 17جولائی کو کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کردی تھی۔

جج عبدالقوی احمد یوسف نے کلبھوشن یادیو کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ پاکستان کی جانب سے کلبھوشن کو سنائی جانے والی سزا کو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کی خلاف ورزی تصور نہیں کیا جاسکتا۔

تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ ویانا کنونشن، جاسوسی کرنے والے قیدیوں کو قونصلر رسائی سے محروم نہیں کرتا جبکہ پاکستان نے کنونشن میں طے شدہ قونصلر رسائی کے معاملات کا خیال نہیں رکھا، لہٰذا پاکستان کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے۔