29

جج ارشد ملک کے مبینہ ویڈیو سکینڈل کی سما عت ملتوی

 اسلام آباد۔سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے مبینہ ویڈیو سے متعلق کیس کی سماعت 23جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرنے کا نوٹس جاری کردیا، گزشتہ روز چیف جسٹس  آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اورجسٹس عمر عطاء بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر چیف جسٹس  آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ  ذمہ دار لوگوں کو عمومی بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سب وکیل جج، پولیس، سیاستدان برے ہیں جو لوگ برے نہیں ہوتے ان کی دل  آزاری ہوتی ہیعدلیہ  میں جذبات نہیں سنجیدگی سے معاملہ دیکھنا ہے پہلا سوال عدلیہ کی ساکھ ہے دوسرا سوال فیصلہ درست ہونے کا یا نہ ہونے کا ہے تیسرا سوال جج کے کنڈکٹ کا ہے توہین عدالت کا مطلب ہوگا جج پر الزامات غلط ہیں۔

 درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے  عدالت کو بتایا کہ مریم نواز نے چھ جولائی کو پریس کانفرنس کی ہے  جس میں  انہوں نے جج پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے ہیں  تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ پریس کانفرنس کہاں اور کس مقام پر ہوئی؟ تو وکیل نے بتایا کہ پریس کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی جس میں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب و دیگر  رہنما موجودتھے  اور الزام عائد کیا گیا کہ جج نے کسی اور کی ایماء پر فیصلہ دیا ہے تاہم جج نے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

 درخواست گزار کے وکیل منیر صادق کا مزید کہنا تھا کہ  جج نے کہا کہ ویڈیو کے مختلف حصوں کو جوڑا گیا ہے اور ارشد ملک کے بیان حلفی میں بھی بلیک میلنگ کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ عدلیہ پر سنگین الزامات عوامی مفادات کا معاملہ ہے اور وزیراعظم نے بھی عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے لہذا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے بھی اس معاملے پر تحقیقات کی بات کی ہے اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیاجارہا ہے تو  اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے کہنے پر نوٹس لینے سے عدلیہ کی آزادی پر سوال نہیں اٹھیں گے۔

آزاد لوگ خود کام کرتے ہیں کسی کے کہنے پر نہیں سوموٹو عدالت لیتی ہے کسی کی ڈیمانڈ پر لیا گیا سوموٹو وہ سوموٹو نہیں ہوتا  اور عدالت کسی کی ڈیمانڈ پر نہیں چلتی  اور آپ کی درخواست بھی یہی ہے کہ ججز ڈیمانڈ پر نہ چلیں  آپ کی کیا تجویز ہے کہ عدالت کیا کرے تو اس موقع پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالت جوڈیشل انکوائری کرائے تو زیادہ بہتر ہوگا  انکوائری کمیشن میں تمام بیانات ریکارڈ کروائے جائیں تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انکوائری کمیشن کی سربراہی کس سے کروانا چاہتے ہیں  تو منیر صادق نے  کہا کہ بہتر ہوگا کہ کوئی جج کمیشن کی سربراہی کرے  عدلیہ کی آزادی کیلئے متعدد اقدامات کی ضرورت ہے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ذمہ دار لوگوں کو عمومی بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سب وکیل جج، پولیس، سیاستدان برے ہیں۔