46

لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013ء کی ترامیم ہائیکورٹ میں چیلنج

پشاور۔صوبائی حکومت کی جانب لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013میں 2019کے دوران کی گئی مختلف ترامیم کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے جس میں ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

 رٹ پٹیشن جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور سابق صوبائی وزیر عنایت اللہ خان نے غلام محی الدین ملک ایڈوکیٹ کی وساطت سے دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے 2019میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں بہت بڑی ترامیم کئے ہے اور خاص کر ضلع ناظم کا عہدہ مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ تحصیل ناظم کو چیئرمین قرار دیا گیا ہے جو براہ راست ووٹرز سیاسی بنیادوں پر منتخب کرینگے۔

 حالانکہ سابقہ ایکٹ میں تحصیل ناظم کو تحصیل کونسل کے ممبران ہی نامزد کرتے تھے رٹ پٹیشن کے مطابق یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل140اے کے خلاف ورزی ہے کیونکہ لوکل گورنمنٹ کے سابقہ ایکٹ میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ زیادہ تر محکموں کا کنٹرول ضلعی حکومتوں کے پاس ہو گا مگر اس اقدام سے صوبائی حکومت تمام امور پر اپنا کنٹرول لانا چاہتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ضلع ناظم کی حیثیت کو مکمل طور پر ختم کرنے سے شدید مسائل سامنے آئینگے۔

 نئے قانون کے تحت تحصیل چیئرمین سیاسی جماعت کا ہو گا اور وہ ایک پارٹی کی نمائندگی کرے گا جس کے باعث نیچے ویلج کونسلزکے ناظمین کو بھی مسائل کا سامنا ہو گااس لئے یہ قوانین غیر آئینی اور غیر قانونی ہے چونکہ مقامی حکومتیں اگست2019میں اپنی معیاد پوری کر رہی ہے اور اس نئے نظام سے بہت سے مسائل کا خدشہ ہے لہذا ان ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے رٹ میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ، سیکرٹری قانون، اور سیکرٹری صوبائی اسمبلی کو فریق بنایا گیا ہے۔