ترکی نے چین کی جانب سے اقلیتی مسلم برادری ایغور سے روا رکھے جانے والے سلوک کو ’انسانیت کے لیے شرم ناک‘ قرار دیتے ہوئے ایغور مسلمانوں کے لیے بنائے گئے حراستی کیمپ فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کردیا۔
ترک وزیر خارجہ حامی اکسوی نے کہا کہ یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ چین نے حراستی مرکز میں 10 لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو قید کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغربی چین میں ایغور مسلم آبادی کو دباؤ کا سامنا ہے اور اس نے اپنے تحفظات سے چین کو ہر سطح پر آگاہ کردیا ہے۔
ترک حکام نے چین سے حراستی مراکز بند کرکے انسانی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ترک وزیر نے کہا کہ ہمیں ایغور کے مشہور موسیقار اور شاعر عبدالرحیم حیات کی قید میں موت کا علم ہوا، جنہیں اپنے ایک گانے کی وجہ سے 8 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
حامی اکسوی نے کہا کہ اس سانحے سے سنکیانگ کے خطے ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے حوالے سے ترک عوام کے خدشات کو مزید تقویت ملتی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ چینی حکام اس جائز ردعمل پر ضرور توجہ دیں گے اور ساتھ ہی اپنی مسلمان اور ترک شناخت کا دفاع کرتے ہوئے جان کی بازی ہارنے والے عبدالرحیم سمیت تمام افراد کو خراج تحسین پیش کیا۔
عبدالرحیم ایران اور وسط ایشیا میں پائے جانے والے 2 تاروں پر مشتمل میوزک کا ایک آلہ بجاتے تھے اور ان کی حراست ایغور کی علیحدہ زبان اور شناخت کے لیے جدوجہد کرنے والے تعلیمی اور ثقافتی شخصیات کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ قرار دی جارہی تھی۔
ابھی تک عبدالرحیم حیات کی موت کی تصدیق نہیں کی گئی جبکہ چین نے ترک وزیر کے بیان پر بھی کوئی ردعمل نہیں دیا۔
سنکیانگ میں 2009 میں ہونے والے خونی فسادات کے بعد چین نے وہاں کی مسلم برادی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا تھا اور انہیں حکومت کے حراستی کیمپوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
کریک ڈاؤن کے دوران بڑی تعداد میں ایغور مسلمان سفر کر کے ترکی پہنچے جہاں کی زبان اور ثقافت بالکل سنکیانگ جیسی ہے۔
چین کی جانب سے کئی ماہ تک حراستی مراکز کی موجودگی کا انکار کیا جاتا رہا ہے لیکن عالمی دباؤ کے بعد چین نے ان حراستی مراکز کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں عارضی ٹریننگ سینٹر قرار دیا تھا۔
ابھی تک چین کی جانب سے اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ ان حراستی مراکز میں کتنے لوگ موجود ہیں اور انہیں کب تک وہاں رکھا جائے گا۔
ماضی میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان چین پر ’نسل کشی‘ کا الزام لگا چکے ہیں لیکن ان دنوں چین اور ترکی کے درمیان اچھے معاشی اور سفارتی تعلقات ہیں۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 10 لاکھ سے زائد ایغور اور دوسری مسلم اقلیتوں کے افراد چین کے صوبے سنکیانگ میں جنگی قیدیوں کے کیمپوں میں قید ہیں۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے رپورٹ میں اس تعصب کو ’خطرناک' قرار دیا تھا کہ سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں کہ کتنے افراد طویل عرصے سے ان کیمپوں میں قید ہیں یا کتنے افراد کو سیاسی تعلیمی سینٹر میں مختلف وقت گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
چین نے اس رپورٹ کے رد عمل میں کہا تھا کہ ایغور مسلمانوں سے متعلق رپورٹ انسداد دہشت گردی کے تناظر میں بنائی گئی ہے جو حقائق کے منافی ہے۔
ایغور کون ہیں؟
چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی برادری 'ایغور' آباد ہیں جو صوبے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں۔
سنکیانگ سرکاری طور پر چین میں تبت کی طرح خودمختار علاقہ کہلاتا ہے۔
گزشتہ کئی عرصے سے ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایغور سمیت دیگر مسلم اقلیتوں کو سنکیانگ صوبے میں قید کرلیا جاتا ہے لیکن چین کی حکومت ان خبروں کو مسترد کررہی ہے۔