56

گولن گول منصوبے کا ایک اور یونٹ نیشنل گرڈ سے منسلک

لاہور ۔واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے 108 میگا واٹ کے گولن گول ہائیڈروپاور منصوبے کے دوسرے یونٹ چترال سے تمرگرہ کی اہم ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے کو نیشنل گرڈ منسلک کردیا۔واپڈا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے بتایا کہ ہم نے کامیابی سے 36 میگا واٹ کے دوسرے یونٹ کو منسلک کردیا ہے اور گولین گول (چترال) سے تمرگرہ تک کی سب سے زیادہ اہم ٹرانسمیشن لائن کو مکمل کرنے سے نیشنل گرڈ میں بجلی میں اضافہ ہوگا۔

خیال رہے کہ گولین گول سے تمرگرہ تک 180 کلو میٹر طویل ٹرانسمیشن لائن پہاڑوں سے گزرتی ہے جہاں موسمی صورتحال انتہائی مشکل ہوتی ہے ٗاس اہم ٹرانسمیشن لائن میں 132 کے وی کے 141 اور 220 کے وی کے 565 ٹاوروں پر مشتمل کل 706 ٹرانسمیشن ٹاور ہیں ٗجو برف کے پہاڑوں پر لگے ہوئے ہیں، ان ٹاورز میں 10 ہزار 312 فٹ کی سب سے زیادہ اونچائی پر لواری ٹوپ بھی شامل ہے ٗ پاکستان میں اتنی اونچائی پر کبھی ٹرانسمیشن ٹاورز نہیں لگائے گئے ہیں۔

واپڈا کے سربراہ نے کہاکہ اس منصوبے کے پہلے یونٹ نے رواں سال جنوری سے پیداوار کا آغاز کردیا تھا اور وہ چترال ، اپر چترال اور دروش کے علاقوں کو ان کی ضرورت سے زائد بجلی فراہم کر رہے ہیں جبکہ دوسرے یونٹ کا جوڑنا اور ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے بجلی کی ترسیل قوم کیلئے ایک بڑی خبر ہے۔انہوں نے کہا کہ جلد ہی اس منصوبے کے تیسرے یونٹ کو نیشنل گرڈ سے منسلک کردیا جائے گا۔

دوسری جانب واپڈا کے ترجمان نے ایک بیان میں بتایا کہ اس منصوبے کو نیشنل گرڈ سے منسلک کردیا گیا ہے اور دوسرے یونٹس سے آزمائشی بنیادوں پر نیشنل گرڈ کے ذریعے بجلی کی فراہمی کی جارہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ دوسرا یونٹس معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کے ساتھ کام کر رہا ہے اور یہ 36 میگا واٹ تک کی بجلی کی پیداواری صلاحیت رکھتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جنوری سے واپڈا کے مقامی انتظامات کے ذریعے منصوبے کا پہلا یونٹ چترال اور اس سے ملحقہ علاقوں کو بجلی کی فراہمی کر رہا ہے۔ترجمان نے واضح کیا کہ اس منصوبے سے بجلی کے صارفین کو 3 کروڑ 30 لاکھ یونٹس فراہم کیے جاچکے ہیں جبکہ اس کا تیسرا اور آخری یونٹ بھی مکمل ہے ٗجسے جلد ہی نیشنل گرڈ سے جوڑ دیا جائے گا۔خیال رہے کہ گولین گول منصوبہ چترال کے قریب دریائے مستوج کے اطراف قائم ہے اور یہ نیشنل گرڈ کو سالانہ 43 کروڑ 60 لاکھ یونٹس بجلی فراہم کرے گا اور اس سے تقریبا 3ارب 70 کروڑ روپے سالانہ کی بچت کا بھی امکان ہے۔