58

انصاف کی فراہمی کیلئے خرابیوں کو دور کرنا ہو گا ٗ چیف جسٹس

اسلام آباد ۔چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پاکستان قائد اعظم کے ویژن سے ہٹ گیا ہے ٗانصاف کی فراہمی کیلئے نظام کی خرابیوں کو دور کرنا ہو گا، معاشرے میں ناانصافی اور بری حکمرانی قائم ہے ٗقانون کی حکمرانی اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے ٗسپریم کورٹ کا سب سے اہم کام حکومت کی دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر توجہ دلانا تھا ۔

میڈیا کو تنقید کی اجازت ہے ٗ اس قسم کی تنقید کی اجازت نہیں جو ججز کی توہین کے مترادف ہو ۔ پیر کو نئے عدالتی سال کے فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ نئے عدالتی سال میں ہمیں اہداف بلند رکھنے ہیں، گزشتہ سال کئی قومی اور انسانی نوعیت کے مقدمات سنے گئے، معاشرے میں نا انصافی اور بری حکمرانی قائم ہے۔

قانون کی حکمرانی اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا سب سے اہم کام حکومت کی دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر توجہ دلانا تھا، عوام کے پرجوش رد عمل پر شکر گزار ہیں، سپریم کورٹ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے، ہمیں انصاف کی فراہمی کے لیے نظام کی خرابیوں کو دور کرنا ہو گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میڈیا کو تنقید کی اجازت ہے لیکن اس قسم کی تنقید کی اجازت نہیں جو ججز کی توہین کے مترادف ہو جبکہ وکلاء کی زیر التواء مقدمات پر بیان بازی بھی درست عمل نہیں آرٹیکل 184/3 کے تحت حاصل اختیارات کے استعمال کے معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ گذشتہ سال کئی قومی اور انسانی نوعیت کے مقدمات سنے گئے، سپریم کورٹ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔چیف جسٹس نے بتایا کہ گزشتہ عدالتی سال میں 19 ہزار مقدمات نمٹائے گئے، یہ شرح گزشتہ پانچ سال میں سب سے زیادہ ہے، غیر سنجیدہ مقدمہ بازی عدالت کے بوجھ میں بے حد اضافہ کرتی ہے، زیر التوا مقدمات نمٹانے میں التواء اور تاخیری حربے بھی رکاوٹ ہیں اور فراہمی انصاف کیلئے زہر قاتل ہیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں گزشتہ سال 36 ہزار 501 مقدمات دائر ہوئے جن میں سے 28 ہزار 970 نمٹائے گئے، فراہمی انصاف میں پاکستان 113 میں سے 106 ویں نمبر پر ہے، عدلیہ کو اپنی آزادی ہر قیمت پر برقرار رکھنی چاہیے ، انصاف ہونا چاہیے چاہے آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے۔

اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان نے کہا کہ عدالتی نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے مستقل طور پر پورے عدالتی سسٹم کو مانیٹر کرنا ہو گا۔صدر سپریم کورٹ بار کلیم خورشید نے کہا کہ ریاست مافیا سے عوام کو بچانے میں یکسر ناکام ہوچکی ہے، پاکستانیوں کے پانچ ارب ڈالر 1992 سے نجی بنکوں میں پڑے ہیں، اسٹیٹ بینک اور نجی بنکوں کے گٹھ جوڑ کے ذریعے عوام کو فائدہ نہیں ہونے دیا جا رہا۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ نے کہا کہ صورت حال یہ ہے کہ فوری نوعیت کے معاملات کی بھی سماعت نہیں ہو پاتی جس سے فریقین مایوس ہوتے ہیں۔