121

بوڑھوں میں جوان خون کی منتقلی کئی امراض سے بچا سکتی ہے، تحقیق

لندن: ڈریکولا کی روایتی فلموں میں اسے جوان لڑکیوں کا خون پیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جس کے بعد وہ خود بھی توانا اور چاق و چوبند رہتا ہے، لیکن ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بوڑھے افراد میں جوانوں کا خون منتقل کرنے سے کئی بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کی ایک ممتاز جینیات داں ڈاکٹر ڈیم لنڈا پیرٹرج نے اس ضمن میں پہلے سے کیے جانے والے سروے اور حاصل شدہ ڈیٹا کا بغور جائزہ لیا ہے اور اسے جدید طب کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بیمار بزرگوں میں نوجوانوں کے خون کی منتقلی سے انہیں امراضِ قلب، کینسر اور ڈیمنشیا جیسی بیماریوں سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں ڈاکٹر پیرٹرج نے بوڑھے چوہوں کو جب مسلسل جوان چوہوں کا خون دیا تو ان میں عمررسیدگی سے جڑے امراض پیدا نہیں ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر جوان چوہوں کو جب بوڑھا خون چڑھایا گیا تو اس کے الٹ اور مضر نتائج برآمد ہوئے۔

ان حوصلہ افزا نتائج کے باوجود ڈاکٹر پیرٹرج کہتی ہیں کہ اس ضمن میں خون کے جسم پر اثرات کا بھرپور مطالعہ کرنا ہوگا جس کے لیے جانوروں پر مزید تجربات درکار ہیں۔ اس کے بعد ہی ہم جان سکیں گے کہ جوان لہو کس طرح بیماریوں کو دور رکھتا ہے۔

ایک اور کمپنی امروسیا نے اس ضمن میں طبی آزمائشیں کی تھیں جس میں تقریباً 70 رضاکار شامل کیے گئے تھے۔ ان میں کم عمر ترین رضاکار کی عمر بھی 35 برس تھی۔ ان سب افراد کو 16 سے 25 سال کے نوجوانوں کا پلازما لگایا گیا تھا جو انسانی خون کا بہت ضروری جزو ہے۔

اسے بعض لوگوں نے ’ویمپائر تھراپی‘ بھی کہا ہے جس میں ماہرین نے دیکھا کہ صرف 24 گھنٹوں میں بوڑھوں میں جوان خون کی منتقلی کے مثبت نتائج مرتب ہوئے۔ 2017ء میں کیے گئے امبروسیا بلڈ ٹرائلز میں بزرگوں کے خون میں وہ تمام بایو مارکرز ایک ماہ کے اندر تیزی سے کم ہوگئے جو الزائیمر، کولیسٹرول، امراضِ قلب اور دیگر مہلک بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس میں تجربات کے دوران چوہوں پر اس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے اور بوڑھے چوہوں میں جوان لہو داخل کرنے سے کولیسٹرول 10 فیصد کم ہوگیا، کینسر کی وجہ بننے والے ممکنہ مالیکیولز (سالمات) میں بھی کمی نوٹ کی گئی۔

اس سے ہٹ کر 55 سالہ الزائیمر کے مریض کو جب جوان خون کا عطیہ دیا گیا تو اس کےجسم میں فوری طور پر مثبت تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور دماغ میں زہریلے مرکبات بننے کا عمل 20 فیصد کم دیکھا گیا۔ اسی بنا پر ماہرین ’جوان خون تھراپی‘ کو بہت امید افزا قرار دے رہے ہیں۔