100

ایس بی پی نے کرنسیوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگادیں

کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے ملک میں مقامی اور غیرملکی کرنسیوں کی نقل وحرکت پر پابندیاں لگا دی ہیں جس کے تحت کرنسیوں کی شہروں کے درمیان نقد نقل وحرکت کو ممنوع قراردیتے ہوئے اس مقصد کے لیے بینک اکاؤنٹ کا استعمال لازمی قراردیا گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے 6 جولائی 2018 کو جاری کردہ سرکلرنمبرایف ای 5 میں ایکس چینج کمپنیوں کو ہدایات کی ہے کہ وہ اپنی لوکیشن (برانچز) کے لیے جتنی فارن کرنسی اورپاکستانی روپے کی جو بھی نقل وحرکت کریں گے وہ باقاعدہ لاگ بک اورکمپنی کے مجازملازم کے ذریعے ہونی چاہیے، اس کے علاوہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں جو بھی پاکستانی کرنسی بھیجیں گے وہ کیش وین کے بجائے بینک اکاؤنٹ کے ذریعے بھیجیں۔

اس سلسلے میں ہفتہ کو فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کی صدارت میں کراچی میں ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میںاس سرکلر کی تمام ہدایات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا گیا جس میں سب ممبران نے ایس بی پی کے اس سرکلرمیں جو ہدایات دی ہیں ان پر عمل درآمد کرانے کے لیے متفقہ طورپر قرارداد منظورکی جو ایس بی پی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ پیرکی صبح ساڑھے 10بجے میٹنگ میں پیش کی جائے گی۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک محمد بوستان نے اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عرفان علی شاہ کو فون پردرخواست کی کہ اس سرکلرمیں ایس بی پی نے جو ہدایات جاری کی ہیں ان ہدایات پرعملدرآمد مذکورہ میٹنگ تک روک دیا جائے۔

ملک بوستان نے انھیں بتایا کہ اس وقت ان ہدایات پرفوری طورپر عمل کرنا ناممکن ہے۔ انھوں نے عرفان علی شاہ سے درخواست کی کہ وہ اس سلسلے میں تمام کمرشل بینکوں کے اعلیٰ حکام کو بھی میٹنگ میں بلاکر سختی کے ساتھ ہدایت کریں کہ وہ ہر ایکس چینج کمپنی کا بینک اکاؤنٹ لازمی کھولیں اور ہرحالت میں انھیں کیش فراہم کریں، اس سلسلے میں جو بینک عمل نہ کرے اس پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔

ایکس چینج کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹ کھولے اور روپے کی فزیکلی کیش ڈیلیوری یقینی بنائے بغیر اس سرکلرپر عملدآمد کرنا ناممکن ہے کیونکہ اس وقت 50 فیصد ایکس چینج کمپنیوں کے اوران کی فرنچائززکے کمرشل بینکوں نے بینک اکاؤنٹ ہی اوپن نہیں کیے، جن ایکس چینج کمپنیوں کے اکاؤنٹ ہیں انھیں دینے کے لیے کمرشل بینکوں کے پاس کیش نہیں ہوتاجس کی وجہ سے ایک شہر سے دوسرے شہر پاکستانی کیش لے جانے کے لیے کیش ون کے ذریعے رقم پہنچائی جاتی ہے۔

اگر اس عمل کو روک دیا گیا تواوورسیز پاکستانیوں کی فیملیز جو ماہانہ اخراجات کیلیے ایکس چینج کمپنیوں سے اپنی ورکر ریمیٹنس کی پیمنٹ وصول کرنے آتی ہیں وہ ایکس چینج کمپنیوں کے کاؤنٹرپررقم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی رقوم وصول نہیں کر سکیں گے جس کی وجہ سے ایکس چینج کمپنیوں کے ذریعے آفیشل چینل سے جو فارن ایکس چینج آرہا ہے وہ آنا بند ہوجائے گا، یہ تمام فارن ایکس چینج غیرقانونی منی چینجرزکی طرف شفٹ ہوجائے گا جس کی وجہ سے لوگ اپنی ورکر ریمیٹنس ہنڈی حوالے کے ذریعے منگوائیں گے کیونکہ وہ انھیں بینک سے زیادہ ریٹ آفر کرتے ہیں۔

اسی طرح جو اوورسیز پاکستانی چھٹیاں گزارنے پاکستان آتے ہیں تومختلف ممالک سے اپنے ساتھ مختلف قسم کی فارن کرنسیاں ساتھ لاتے ہیں اورایکس چینج کمپنیوں کے کاؤنٹرپرآکرفروخت کرتے ہیں، جب ایکس چینج کمپنیوں کے کاؤنٹرپررقم نہیں ہوگی تو وہ یہ تمام فارن کرنسیاں غیرلائسنس یافتہ غیرقانونی منی چینجرزکوفروخت کریں گے جس کی وجہ سے ملک بھر میں فارن ایکس چینج کی سپلائی منقطع ہوجائے گی اورمارکیٹ میں ڈالر شارٹ ہوجائے گا جس کی وجہ سے ڈالرکا ریٹ بہت زیادہ بڑھ جائے گا کیونکہ انہی فارن کرنسیوں کو ایکس چینج کمپنیاں دبئی ایکسپورٹ کرکے اس کے عوض روزانہ 4سے5ملین ڈالرواپس پاکستان لاکر پبلک کوفراہم کرتی ہیں جس کی وجہ سے عوام کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔

اس وقت ایکس چینج کمپنیوں کے ذریعے سالانہ 6ارب ڈالرآرہے ہیں، یہ تمام فارن ایکس چینج ان آفیشل چینل میں شفٹ ہو جائے گا، ایکس چینج کمپنیاں یہ ڈالر بیرون ممالک جانے والوں کو تعلیم، صحت، ٹریولنگ، بزنس ٹور، آفیشل ٹور، سیاحت، حج وعمرہ، زیارت کو جانے والوں کو اور جو پاکستانی اپنے پرسنل ڈالراکاؤنٹ اورپرسنل سیونگ کرنے والوں کو فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے آج 6ارب ڈالرکمرشل بینکوں میں موجود ہیں۔

اگر ایکس چینج کمپنیوں کے پاس فروخت کرنے کے لیے نہ ڈالرنہ سعودی ریال، نہ درہم اور نہ ہی دیگرفارن کرنسیاں ہوں گی تو جب فری مارکیٹ میں فارن کرنسیاں نایاب ہو جائیں گی تولوگ بلیک مارکیٹ سے فارن کرنسیاں خریدیں گے جو انھیں من مانی قیمت پر فروخت کریں گے، اس سے ملک دشمن عناصرفائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی تعداد میں جعلی ڈالر بھی فروخت کریں گے جس کی وجہ سے ملک کوناقابل تلافی نقصان پہنچے گا کیونکہ پبلک کواصلی اورجعلی کی پہچان نہیںہے، انھیں لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنی اپنی گارنٹی سے اصل ڈالر فروخت کرتی تھی۔

اس ساری صورت حال سے ملک بوستان نے عرفان علی شاہ کو آگاہ کیا اورانھوںنے میٹنگ تک اس سرکولر کی ہدایت کوہولڈ کرنے کی اجازت دے دی اور ایکس چینج کمپنیوں کو کہا کہ اس وقت تک اس سرکلرسے پہلے کی طرح اپنے اپنے آپریشن جاری رکھیں۔

ملک بوستان نے ان کا شکریہ ادا کیا اورانھیں یقین دلایا کہ ایکس چینج کمپنیاں ایس بی پی کے ہیلپنگ ہینڈ ہیں ہم ایس بی پی کی ہر اس ہدایت پر عمل کرنے کے لیے تیارہیں جس پرعمل کرنا ممکن ہواورملک کے مفاد میں ہو ہم ملک کے وقارکے لیے ہرقسم کی قربانی دینے کے لیے تیارہیں۔