ڈرہم ، نارتھ کیرولینا: کینسر کی شناخت کے لیے ماہرین نے خون کے نمونوں پر مبنی مائع (لیکوئڈ) بایوپسی کا طریقہ وضع کیا ہے جس میں کئی مشکلات درپیش تھیں لیکن اب آواز کی لہروں سے کینسر کی شناخت کا ایک آسان اور کم خرچ طریقہ دریافت کرلیا گیا ہے۔
مریض کے خون میں سرطانی پھوڑے کے چھوٹے ذرات (سی ٹی سی) موجود ہوتے ہیں جو خود سرطان کے بارے میں زبردست معلومات فراہم کرتے ہیں۔ انہیں خون میں شناخت کرکے الگ کرنا ہمیشہ سے ہی ایک چیلنج رہا ہے کیونکہ خون کے اربوں صحتمند خلیات میں یہ چند ہی پائے جاتے ہیں۔
اب ڈیوک یونیورسٹی، ایم آئی ٹی اور سنگاپور کی ننیانگ یونیورسٹی کے ماہرین نے مل کر ایک آلہ بنایا ہے جو آواز کے ذریعے سرطانی رسولیوں کے ذرات کو خون سے الگ کرکے بہ آسانی شناخت کرسکتا ہے۔ ڈیوک یونیورسٹی میں مٹیریل سائنس کے پروفیسر ٹونی جون ہوانگ اور ان کے ساتھیوں نے خون کو ایک باریک نالی سے گزارا اور اس پر ایک خاص سمت سے آواز کی لہریں پھینکیں۔ چونکہ آواز یہاں دباؤ کی قوت ڈال رہی تھی اس لیے خون کے تندرست خلیات گزرتے رہے لیکن کینسر والے بڑے اور سخت خلیات خون کی سطح پر ظاہر ہوگئے جنہیں ایک اور چینل کے ذریعے ایک خانے میں ڈال دیا گیا۔
اس عمل میں کینسر کا خلیہ تباہ نہیں ہوتا اور اسے آسانی سے بعد میں بہت تفصیل سے دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ کس قسم کا کینسر ہے۔ یہ آلہ ایک گھنٹے میں ساڑھے 7 ملی لیٹر خون کا جائزہ لیتا ہے اور 86 فیصد درستگی سے کینسر کے باریک ذرات کو پہچان لیتا ہے۔ اس طریقے سے ہر مریض کے انفرادی سرطان کو خون کے اندر سے شناخت کرکے اس کے لیے مخصوص علاج مہیا کرنا بھی ممکن ہوگا جسے ’انفرادی طب‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین نے مرد مریضوں کے خون میں سے پروسٹیٹ کینسر کی کامیاب شناخت اسی آواز کے ذریعے انجام دی ہے