106

ٹائپ ون ذیابیطس مریضوں کے لیے کھائی جانے والی گولی تیار

میسا چیوسیٹس: ذیابیطس کے مریضوں کےلیے روزانہ ٹیکوں کے ذریعے انسولین بدن میں داخل کرنے کا عمل خاصا تکلیف دو ہوتا ہے لیکن اب ٹائپ ون ذیابیطس کےلاکھوں کروڑوں مریضوں کےلیے ایک نیا طریقہ امید کی کرن بن سکتا ہے۔ اس میں وہ عام گولی کی طرح انسولین کو منہ کے ذریعے جسم کا حصہ بناکر خون میں شکر کی مقدار قابو میں رکھ سکتے ہیں۔

ہارورڈ جان اے پالسن اسکول آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز (ایس ای اے ایس) کے ماہرین نے منہ کے ذریعے انسولین کھانے کا ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے جس سے وہ اپنی زندگی بہتر بناتے ہوئے روزانہ تکلیف دہ سوئیوں سے نجات پاسکتے ہیں۔

توقع ہے کہ اس سے ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا دنیا بھر کے کروڑوں افراد مستفید ہوں گے جس کی تفصیلات پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز (PNAS) میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

اسی ای اے ایس سے وابستہ ماہر ڈاکٹر سمیر متراگورتی نے کہا، ’انسولین کے ٹیکوں سے مریض خوفزدہ ہوتے ہیں اوراسی لیے وہ باقاعدگی سے انسولین استعمال کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ اس سے ان کی صحت مزید خراب ہوتی ہے اور دیگر پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔‘

اس سے قبل انسولین کھانے کے سارے تجربات اس لیے ناکام ہوئے کہ معدے کے اندر تیزاب اور ہاضماتی رس انسولین کی افادیت ختم کردیتے ہیں۔ اس کےلیے ماہرین نے نئے طریقے میں انسولین کو کولائن اور جیرانک ایسڈ کے آئنی محلول میں رکھا۔ پھر اس پر ایک خاص حفاظتی ملمع چڑھایا گیا جو معدے کے تیزاب کا مقابلہ کرتا ہے۔ آخری مرحلے میں یہ پورا نظام ایک کیپسول میں بھردیا گیا۔ ماہرین کے مطابق اسے بنانا آسان اور کم خرچ ہے۔ اسے عام درجہ حرارت پر دو ماہ تک کسی خرابی کے بغیر رکھا جاسکتا ہے اور اس طرح بازار میں موجود تمام ادویہ سے اس کی افادیت زیادہ ہے۔

ڈاکٹر سمیر کے مطابق یہ کیپسول تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے، جسمانی تیزابوں کو ناکارہ بناتے ہوئے انسولین کو خون میں جذب کرتا ہے اور اس کا اثر عین انسولین کی طرح ہوتا ہے۔ ابتدائی طور پر اسے جانوروں پر کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے جبکہ اگلے مرحلے میں اسے انسانوں پر آزمایا جائے گا جس میں کامیابی کے بعد انسولین بھرے کیپسول دستیاب ہوسکیں گے۔