37

جسٹس مظاہر علی نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل پر اعتراضات اٹھا دیے

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اپنے خلاف ریفرنس اور شواہد کی نقول مانگ لیں۔

جسٹس مظاہر علی نقوی کی جانب سے اعتراضات سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کروائے گئے جن میں کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے میری بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی کی مخالفت کی تھی، جوڈیشل کمیشن اجلاس کے منٹس اور ان کا اختلافی نوٹ مانگنے پر بھی نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس سردار طارق پہلے ہی میرے خلاف اجلاس بلانے کیلیے خط لکھ چکے، میرے خلاف 9 شکایات مبینہ آڈیو لیک کی بنیاد پر ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان آڈیو لیکس کمیشن کے ارکان ہیں، سپریم کورٹ آڈیو لیکس کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن معطل کر چکی ہے۔

اپنے اعتراضات میں انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس کا معاملہ زیر سماعت ہے اس لیے جوڈیشل کونسل معاملہ سننے کی مجاز نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل اکثریت سے صرف حتمی رائے صدر کو بھجوا سکتی ہے، جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی صرف اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ آئین سپریم جوڈیشل کونسل کو رولز بنانے کی اجازت ہی نہیں دیتا، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس سردار طارق جوڈیشل کونسل رولز کو پہلے ہی غیر آئینی کہہ چکے، شوکاز نوٹس میں اپنا مؤقف تبدیل کرنے کی دونوں ججز نے کوئی وجہ نہیں بتائی۔

سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ شکایات پر سپریم جوڈیشل کونسل میں بحث ہوئی نہ کسی سے معلومات لی گئیں، جسٹس سردار طارق کے کیس میں کونسل نے شکایت کنندہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا اور شواہد مانگے، میرے کیس میں شکایت کنندہ کو بلایا نہ ہی مزید معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا۔

’جو موقع جسٹس سردارطارق کو کونسل کی جانب سے دیا گیا وہ مجھے نہیں ملا۔ شوکاز نوٹس میں کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ شوکاز کے ساتھ منسلک 10 شکایات میں غیر سنجیدہ الزامات ہیں جن کے شواہد بھی نہیں۔‘

سپریم جوڈیشل کونسل کا جسٹس مظاہر علی نقوی کو شوکاز نوٹس

سپریم جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کو جسٹس مظاہر علی نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مظاہر علی نقوی 14 دن میں شوکاز نوٹس کا جواب دیں۔ کونسل کے 3 ارکان نے نوٹس جاری کرنے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 2 ارکان نے مخالفت کی تھی۔ کونسل اجلاس میں جسٹس سردار طارق مسعود کی رائے پر بحث کی گئی۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی شکایت 23 فروری کو سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی تھی۔ درخواست گزار میاں داؤد کی جانب سے دائر کردہ شکایت میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مبینہ مس کنڈکٹ، بدعنوانی، ٹیکس تفصیلات میں ردوبدل، اقربا پروری اور ایک سیاسی جماعت کیلیے نرم گوشہ رکھنے جیسے الزامات عائد کیے گئے۔

یہ شکایت آئین پاکستان کے آرٹیکل دو سو نو(5) کے تحت چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل کے دفتر میں فائل کی گئی۔ شکایت میں مبینہ آڈیو ٹیپ کا متن بھی شامل کیا گیا۔

شکایت میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف الزامات کی جانچ پڑتال کیلیے انکوائری شروع کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کو بطور جج سپریم کورٹ منصب سے ہٹایا جائے۔