38

غزہ جنگ کے حوالے سے نیتن یاہو کا خفیہ پلان لیک ہوگیا

غزہ میں جنگ اور وہاں مقیم فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے مکروہ پلان پر مبنی خفیہ دستاویزات لیک ہوگئی ہیں، جنہوں نے ہنگامہ مچا دیا ہے۔

مبینہ خفیہ دستاوزات کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم کا منصوبہ ہے کہ غزہ کی پوری آبادی کو غزہ سے نکال کر مصر کے جزیرہ نما سینائی میں دھکیل دیا جائے اور انہیں وہیں بسا دیا جائے۔

اسرائیلی وزیراعظم نے ان دساتویز کو فرضی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے کا خاکہ انٹیلی جنس حکام کے تیار کردہ ایک تصوراتی ڈاکیومنٹ میں دیا گیا تھا اور پالیسی سازوں نے اس پر بحث نہیں کی تھی۔


لیکن اسرائیلی میڈیا میں وسیع پیمانے پر رپورٹ ہونے والی اس دستاویز کی فلسطینی رہنماؤں کی طرف سے مذمت کی گئی ہے اور اس سے پڑوسی ملک مصر کے ساتھ کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے۔

7 اکتوبر کو ہوئے حماس حملے کے چھ دن بعد اسرائیلی انٹیلی جنس منسٹری کی رپورٹ میں ’حماس کے جرائم کی روشنی میں غزہ کی شہری حقیقت میں نمایاں تبدیلی لانے کے لیے‘ تین متبادلات پر غور کیا گیا۔

رپورٹ میں غزاہ کی 22 لاکھ سے زیادہ آبادی کو شمالی سینائی کی خیمہ بستیوں میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کی گئی، اس کے بعد مستقل شہر کی تعمیر اور ایک غیر متعینہ انسانی راہداری تعمیر کی جانی تھی۔

رپورٹ میں پیش کی گئی تتجویز کے مطابق اسرائیل کے اندر ایک سیکورٹی زون قائم کیا جانا تھا تاکہ بے گھر فلسطینیوں کو داخلے سے روکا جا سکے۔

رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ غزہ کی آبادی کا صفایا ہونے کے بعد اس کا کیا بنے گا، لیکن اشارہ دیا گیا کہ بے دخل کیے گئے باشندے بالآخر کسی اور جگہ آباد ہو سکتے ہیں۔

دستاویز میں کہا گیا کہ ترکی، قطر اور متحدہ عرب امارات سمیت ممالک مہاجرین کو رقم دے سکتے ہیں یا انہیں دوبارہ آباد کر سکتے ہیں۔

دستاویز میں تسلیم کیا گیا کہ یہ تجویز بین الاقوامی قانونی حیثیت کے لحاظ سے پیچیدہ ہوسکتی ہے۔

نیتن یاہو کے دفتر نے اسے ایک ”تصوراتی مقالہ“ قرار دیا، بیان میں کہا گیا کہ ’اسرائیل کے کسی بھی سرکاری فورم میں ”آخر کے دن“ کے مسئلے پر بات نہیں کی گئی ہے، توجہ اس وقت حماس کی حکومت اور فوجی صلاحیتوں کو تباہ کرنے پر مرکوز ہے‘۔

اسرائیل نے پٹی کے شمال میں شہریوں سے کہا ہے کہ وہ جنوب میں چلے جائیں۔ لیکن وہاں رہنے والے بہت سے لوگوں کو غزہ میں اسرائیل کی فوجی دراندازی کا خدشہ ہے۔ اسرائیل کی حماس کے خلاف کارروائی فلسطینیوں کی سرزمین کے تمام یا کچھ حصے کو خالی کرانے کا بہانہ ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے رپورٹ کے بارے میں کہا کہ ’ہم کسی بھی جگہ، کسی بھی شکل میں منتقلی کے خلاف ہیں، اور ہم اسے ایک سرخ لکیر سمجھتے ہیں جسے ہم عبور کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ 1948 میں جو ہوا وہ دوبارہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔

مصر نے بھی جنگ کے آغاز سے ہی واضح کر دیا ہے کہ وہ مہاجرین کو قبول نہیں کرنا چاہتا۔ مصر نے تجویز دی ہے کہ پناہ گزینوں کو اسرائیل کے اپنے جنوبی صحرائے نیگیو میں رکھا جائے۔