58

امارت اسلامی فتویٰ جاری کرچکی ہے کہ پاکستان میں حملہ جہاد نہیں، افغان قونصل جنرل

افغانستان کے ایک سینئر سفارت کار کا کہنا ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان (طالبان انتظامیہ) پہلے ہی فتویٰ (حکم) جاری کر چکی ہے کہ ’پاکستان میں حملے کرنا جہاد نہیں ہے‘

بدھ کو پشاور میں افغان قونصلیٹ کے قائم مقام قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے نجی ٹی وی گفتگو میں کہا کہ ان کے ملک کی وزارت دفاع نے بھی واضح کیا ہے کہ پاکستان پر حملہ کرنا جہاد کے زمرے میں نہیں آتا۔

محب اللہ شاکر نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند سابق امریکی حمایت یافتہ افغان صدر اشرف غنی کے دور 2014-2021 کے دوران افغانستان ہجرت کر گئے تھے۔

افغان سفیر نے مزید کہا کہ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں، افغانستان سے پاکستان پر کوئی حملہ نہیں کیا جائے گا۔

پاکستانی حکومت نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور پڑوسی ملک کی سرزمین پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

جب سے افغان طالبان نے 2021 میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے، پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور 2023 آٹھ سالوں میں سب سے زیادہ مہلک رہا ہے۔ حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ افغان شہری سیکورٹی پر حملوں میں ملوث تھے۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے سرحدوں کے ساتھ پاکستان پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور وہ ’افغان سرزمین پر پناہ لے رہے ہیں‘۔

وائس آف امریکہ نے گزشتہ ماہ پاکستانی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ پاکستان کی جانب سے کارروائی کرنے کے بار بار اصرار کے جواب میں، عبوری افغان حکمرانوں نے پاکستان کے خلاف حملوں میں ملوث 200 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا۔

عبوری وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ان کے طالبان ہم منصب امیر خان متقی نے رواں ماہ کے شروع میں چین کی میزبانی میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر ملاقات کی۔

وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ جیلانی نے ’اس بات پر زور دیا کہ علاقائی امن اور استحکام کو درپیش چیلنجوں سے اجتماعی حکمت عملی کے ذریعے باہمی تعاون کے ساتھ نمٹا جائے‘۔

خیال رہے کہ حکومت نے پاکستان میں موجود غیر قانونی افغان مہاجرین کو حکم دیا ہے کہ وہ یکم نومبر تک ملک سے نکل جائیں یا ملک بدری کا سامنا کریں، ڈیڈ لائن میں صرف پانچ دن باقی ہیں اور لاکھوں افغان باشندے ملک میں مقیم ہیں۔

قائم مقام افغان قونصل جنرل نے کہا کہ ہمیں افغان مہاجرین کے حوالے سے کیے گئے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں تاہم انہیں واپس بھیجنے کے لیے مناسب طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بہتر ہو گا افغان مہاجرین کو پاکستان میں اپنے معاملات سمیٹنے کے لیے وقت دیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ان کی (افغانستان میں) آمد کے انتظامات بھی کر لیے ہیں۔

محب اللہ شاکر نے کہا کہ ’لوگ اب افغانستان میں اپنا کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں۔ لیکن درحقیقت، افغان پناہ گزینوں کے لیے یہ مشکل ہو گا جب وہ واپس آئیں گے‘۔

نگراں حکومت نے اس ماہ کے شروع میں، بشمول 1.73 ملین افغان شہری تمام غیر ملکیوں کو دہشت گرد حملوں کی ایک سیریز کے بعد ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی، ان حملوں میں افغان شہری 24 میں سے 14 خودکش بم دھماکوں کے ذمہ دار پائے گئے۔

 

اقوام متحدہ (یو این) نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں مقیم مہاجرین کو رضاکارانہ طور پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے اور ان پر کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے۔

پاکستان نے 1979 میں سوویت یونین کے حملے کے بعد سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔