35

لوگوں کا لاپتہ ہونا ملک کی بدنامی کا باعث بنتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے مسنگ پرسنز کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ لوگوں کا لاپتہ ہونا ملک کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے صحافی مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی درخواستوں پر سماعت کی۔

 جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کیسز دنیا میں پاکستان کے نام پر سیاہ دھبہ لگا رہے ہیں۔ وزیراعظم اس عدالت میں پیش ہوئے لیکن انہوں نے بھی عدالت کو گمراہ کیا۔ اگلے وزیراعظم آئیں گے تو ان کی ترجیحات کچھ اور ہوں گی۔ یہاں لوگ لاپتہ ہوتے ہیں کیا آپ اس ملک کے ترقی کرنے کی امید رکھتے ہیں، کوئی ملک آپ کو ڈالر نہیں دے گا اگر آپ کے شہری محفوظ نہیں ہوں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل آج دستیاب نہیں، آئندہ سماعت پر دلائل دیں گے۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں عدالت کے سامنے کہتی ہیں کہ ہم نے نہیں اٹھایا، ہر کوئی جانتا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں لوگوں کو لاپتہ کرتی ہیں۔ عدالتوں کو شہریوں کا لاپتہ کرنے کا عمل کسی طور برداشت نہیں کرنا چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ بار بار ڈائریکشنز جاری کرتے ہیں لیکن کوئی عملدرآمد نہیں ہو رہا، لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں لیکن ریاست کچھ بھی نہیں کرتی، ریاست طاقتور ہے لیکن لاپتہ افراد کے کیسز میں کہتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

 ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر کمیٹی تشکیل دی گئی، سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔

 چیف جسٹس نے کہا کمیٹی بنی تو پھر کیا ہوا سب کو پتہ ہے، عملی کام کریں۔ جسٹس میاں گل حسن نے کہا اٹارنی جنرل وزیراعظم سے ملیں اور پیش رفت رپورٹ لے کر آئیں، اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کریں۔

 کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔