22

نیب قانون میں متعدد ترامیم فارغ،مقدمات بحال


سپریم کورٹ نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت قرار دے دی۔

تفصیلات کے مطابق  چیف جسٹس پاکستان نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر فیصلہ سنایا جس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لیڈیز اینڈ جنٹلمین، دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنا رہے ہیں۔


عدالتی فیصلے میں کہاگیا ہےکہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دی جاتی ہے، 500 ملین کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دی جاتی ہے تاہم سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شقیں برقرار رکھی جاتی ہیں۔


عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں، عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، نیب ترامیم کے سیکشن 10 اور سیکشن14 کی پہلی ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔

 عدالت نے 50  کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بحال کردیے اور عدالت نے ریمارکس دیئے کہ تمام ختم انکوائریز،کیسز بحال کیے جاتے ہیں، تمام کیسز نیب عدالتوں اور احتساب عدالتوں میں دوبارہ مقرر کیے جائیں۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی کچھ شقیں کالعدم قرار دی ہیں۔عدالت نے نیب کو 7 دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم دیا ہے۔

 

عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہےکہ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے، نیب ترامیم کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کی جائیں۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا اور اس حوالے سے جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا ریٹائرمنٹ سے پہلے اس اہم کیس کا فیصلہ کر کے جاؤں گا۔

عدالت عظمیٰ کے تین رکن بینچ میں چیف جسٹس  پاکستان کے ساتھ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔


تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گذشتہ برس 31 اگست کو حکومت کی جانب سے کی گئی نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ نیب قوانین میں کی گئی حالیہ ترامیم بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں اس لیے انہیں کالعدم قرار دیا جائے۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں عمران خان نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، اس لیے نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔


درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ترامیم کرنے والوں نے اپنی ذات کو بچانے کے لیے نیب قانون کا حلیہ ہی بدل دیا ہے۔ ان ترامیم کے بعد بیرون ملک سے آئے شواہد عدالت میں قابل قبول نہیں ہوں گے۔

بعد ازاں اکتوبر 2022 میں اسی کیس میں ایک متفرق درخواست بھی دائر کی گئی جس میں موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم کے باعث کرپشن کے متعدد مقدمات نیب عدالتوں نے ختم کر دیے ہیں۔متفرق درخواست میں استدعا کی گئی کہ نیب عدالتوں سے واپس کئے گئے تمام ریفرنسز کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔


گذشتہ برس جون 2022 میں سابقہ اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی۔

منظوری نہ ملنے پر بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا۔ ترمیمی بل میں کہا گیا کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی چار سال کی مدت بھی کم کر کے تین سال کی گئی۔

ترمیم کے مطابق قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا۔

ترمیمی قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔