29

سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل، سماعت کرنیوالا 7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا

ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت سماعت کرنیوالا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔ حکومت کے اعتراض کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا۔

فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت دوبارہ شروع ہوگئی۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے، جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہماری درخواست پر ابھی تک نمبر نہیں لگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کرکے آرہے ہیں۔

چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے مکالمے میں مزید کہا کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعا کر رکھی ہیں۔ جس پر حامد خان نے کہا کہ میں ان میں سے صرف فوجی عدالتوں والی استدعا پر فوکس کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔

درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوءے کہا کہ میرے مؤکل کے بیٹے کا معاملہ فوجی عدلتوں میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کرسکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ ایف پی ایل ای اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے، ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ فوجی افسران کے ٹرائل پر تھا۔ جسٹس منیر اختر نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک فوجی افسر کا بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اگر ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے، بینکنگ کورٹ یا اے ٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل شروع ہوا ہے۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہوگا تو یوں ہوگا، ایسے تو کل فوجی افسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گی، ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے متعلقہ بات ہی کریں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر آپ کا اعتراض 175 تھری کی حد تک ہے؟، یہ جاننا اب ضروری ہے کہ آپ کی سیکشن 2 ڈی پر کیا انڈر اسٹینڈنگ ہے؟، ایف پی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کا فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا، کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟، آپ کی کیا دلیل ہے، آپ نے ایکٹ کی شقیں چیلنج کی ہیں اس کی بنیاد کیا ہے؟۔

سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ آرٹیکل 175 تین کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا، سپریم کورٹ خود ایک کیس میں طے کرچکی ہے کہ عدالتی معاملات عدلیہ ہی چلا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، کیا آپ فوجی عدالتوں میں فوجیوں کے ٹرائل پر بھی جانا چاہتے ہیں، ہم بہت سادہ لوگ ہیں ہمیں آسان الفاظ میں سمجھائیں، آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو ہمیں یہ ہی بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جاسکتا ہے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ صرف کسی پر ایک الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ سویلینز کی بھی دو اقسام ہیں، ایک وہ سویلین جو آرمڈ فورسز کو سروسز فراہم کرتے ہیں، فورسز کو سروسز دینے والے سویلین فوجی ڈسپلن کے پابند ہیں، دوسرے سویلینز وہ جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں، دوسری قسم کے سویلینز کا ٹرائل 175 تین کے تحت تعینات جج ہی کرے گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا ک کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175 تین سے تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے ریامرکس دیئے کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے کہیں چیلنج نہیں ہوسکتے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فیصلے آرمی چیف یا ان کی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہوسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہونا چاہئے، یہ کہنا کہ ملٹری کورٹس ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرح ہو تو کیس کا دائرہ کار وسیع کردے گا، ہم آسٹریلیا یا جرمنی کی مثالوں پر نہیں چل سکتے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ متوازی نظام ہے، عدالت نہیں کہہ سکتے؟۔ جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے، آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے، سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا ہے کہ آپ سویلین کی حد تک ہی ٹرائل چیلنج کر رہے ہیں نا؟، آپ فوجیوں کے ٹرائل تو چیلنج نہیں کررہے؟۔ جس پر سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ نہیں میں فوجیوں کے ٹرائل چیلنج نہیں کر رہا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں ایمرجنسی یا بنیادی حقوق معطل ہوں تو کیا پھر سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ امریکی قانون اس پر بڑا واضح ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ امریکا میں جو سویلین ریاست کیخلاف ہو جائیں ان کا ٹرائل کہاں ہوتا ہے؟، فیصل صدیقی نے کہا تھا کہ دنیا میں فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل ہوتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا ہمارے خطے میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟۔ سلمان اکرم نے جواب دیا کہ بھارت میں ایسا نہیں ہوتا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ کے سامنے ملٹری کورٹس میں سویلنز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔

حکومت نے سماعت کرنیوالے لارجر بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتہ دار ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی مرضی اور خواہش پر بینچ نہیں بن سکتے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کس بنیاد پر بینچ کے معزز رکن پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، میں نے پہلے ہی دن کہا تھا کسی کو بینچ پر اعتراض ہے تو بتا دیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی ہدایت ہے کہ جسٹس منصور پر اعتراض اٹھایا جائے، میرا ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں۔

حکومت کی جانب سے اعتراض کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، 7 رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس نے سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کردی۔

اس سے قبل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ جس پر جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں، کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے پھر میں کبھی اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔

وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب معزز جج خود ہی معذرت کرچکے ہیں۔

جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ کیا آپ مفادات کے ٹکراؤ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟، آپ ایک اچھے کردار اور اچھی ساکھ کے وکیل ہیں، ایک پوری سیریز ہے جس میں بینچ میں باربار اعتراض اٹھایا جارہا ہے، پہلے یہ بحث رہی کہ پنجاب الیکشن کا فیصلہ 3 ججوں کا تھا یا 4 کا؟ جواد ایس خواجہ صاحب ایک درویش انسان ہیں، آپ ایک مرتبہ پھر بینچ کو متنازع بنا رہے ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلباء سے مذاق میں ایک بات کہی تھی، انہوں نے کہا تھا کیس ہارنے لگو تو بینچ پر اعتراض کردو، وفاقی حکومت بھی اب یہی کر رہی ہے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ ‏کبھی کہا جاتا ہے بینچ درست نہیں بنایا گیا، آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں، آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا حکومت ایک مرتبہ پھر تناسب کے ایشو پر جانا چاہتی ہے؟، کس نے یہ نہیں کہا کہ 90 دنوں میں انتخابات آئینی تقاضہ ہے، فیصلے پر اصولی طور کوئی اعتراض نہیں تناسب پر اعتراض اٹھایا گیا، موجودہ کیس بہت سادہ ہے، آپ بنیادی حقوق کیسے ختم کریں گے؟۔