35

خیبرپختونخوا کا 1400 ارب کا بجٹ کل پیش ہوگا، تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ تجویز

پشاور: نگراں خیبرپختونخوا حکومت نے نئے مالی سال کے لیے 1400 ارب کا بجٹ تیار کرلیا، جاریہ اخراجات کے لیے 462 ارب، ترقیاتی منصوبوں کے لیے 112 ارب، بندوبستی اضلاع کے لیے 102 ارب اور قبائلی اضلاع کے لیے 59 ارب رکھے گئے ہیں، تنخواہوں میں 35 فیصد اور پنشن میں 17 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

 نگراں خیبر پختون خوا حکومت نے نئے مالی سال 2023-24ء کے لیے 1400 ارب سے زائد مالیت کا بجٹ تیار کرلیا تاہم نگراں حکومت صرف چار ماہ کا بجٹ پیش کرے گی جو کہ کل پیش کیا جائے گا۔ مشیر خزانہ حمایت اللہ خان کل صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد پریس کانفرنس میں بجٹ پیش کریں گے۔

تنخواہ

بجٹ میں تنخواہوں کیلئے 192 ارب 97 کروڑ 80 لاکھ روپے، پنشن کیلئے 42 ارب 36 کروڑ 10 لاکھ روپے، گریڈ 1  سے 16 تک ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح گریڈ 17 اوراس سے اوپر گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

کم از کم اجرت

مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت 26 ہزار سے بڑھا 32 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔

پنشن

ریٹائرڈ ملازمین کے پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافے کی تجویز ہے، ڈیپوٹیشن الاؤنس میں 50 فیصد، ملازمین کے سیکریٹریٹ پرفارمنس الاؤنس میں 100 فیصد، معذور ملازمین کے کنونس الاؤنس میں 100 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔

بجٹ میں پولیس اہل کاروں کے راشن الاﺅنس میں اضافہ کیا جائے گا، سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر پابندی کی تجویز ہے۔

بندوبستی اضلاع

بجٹ دستاویز کے مطابق  بندوبستی اضلاع کے لیے 402 ارب 61 کروڑ اور 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں بندوبستی اضلاع کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 43 ارب 33 کروڑ 30 لاکھ روپے، بندوبستی اضلاع کی مقامی حکومتوں کیلئے 8 ارب 66 کروڑ 70 لاکھ روپے اور بندوبستی اضلاع کے اخراجات جاریہ کے لیے 309 ارب 49 کروڑ 80 لاکھ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

ضم قبائلی اضلاع

ضم قبائلی اضلاع کیلئے 59 ارب 54 کروڑ 30 لاکھ روپے مختص ہیں جس میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے 8 ارب 66 کروڑ 70 لاکھ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

بی آر ٹی

بجٹ میں بی آر ٹی کیلئے سبسڈی کی مد میں ایک ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

بجٹ میں سابقہ فاٹا و پاٹا کو مزید دو سال کے لیے ٹیکسوں سے چھوٹ دینے کی تجویز زیر غور ہے، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، بجٹ میں بھرتیوں، نئی گاڑیوں کی خریداری اور سرکاری دفاتر و رہائش گاہوں کی تزئین وآرائش پر پابندی عائد رہے گی۔

ذٓرائع نے بتایا ہے کہ اس بجٹ میں بھی گزشتہ صوبائی حکومت کی جانب سے نافذ ٹیکس اور ان کی شرح برقراررہے گی، پراپرٹی ٹیکس میں 5 مرلے تک کے مکانات کا استثنیٰ ختم اور 3 مرلے کے مکانات پرٹیکس وصولی کی جائے گی۔

صوبائی ہیڈ کوارٹر میں درجہ اے کے تین مرلے سے زیادہ اور پانچ مرلے سے کم مکانات پر سالانہ ڈیڑھ ہزار روپے ٹیکس وصول کیا جائے گا،  درجہ بی مکانات پر سالانہ 1300 روپے، درجہ سی کے مکانات پر سالانہ 1100 روپے، ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کے دیگر علاقوں کے رہائشی مکانات پر سالانہ 500 سے 800 روپے پراپرٹی ٹیکس وصول کیاجائے گا۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں 500 سے 600 روپے، صوبائی دارالحکومت میں پانچ سے دس مرلے تک کے مکانات درجہ اے سے سالانہ 2500 روپے ٹیکس وصول کیاجائےگا،درجہ بی مکانات سے سالانہ 2400 روپے جبکہ درجہ سی مکانات سے سالانہ 2200 روپے ٹیکس وصولی کی جائے گی۔

ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں پانچ سے دس مرلے کے رہائشی مکانات پر سالانہ 2200 سے 2400 روپے، ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کے دیگر علاقوں میں 1100 سے 1400 روپے ٹیکس وصول ہوگا۔

ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں 1200 روپے جبکہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز کے دیگر علاقوں میں 700 سے 900 روپے سالانہ پراپرٹی ٹیکس کی وصولی جاری رہے گی، 10 سے 15مرلے کے مکانات درجہ اے کے رہائشی مکانات پر سالانہ 3300 روپے ،درجہ بی کے رہائشی مکانات پر سالانہ 3100 روپے جبکہ درجہ سی سے سالانہ 3000 روپے کی وصولی جاری رہے گی۔

ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کے دیگر علاقوں میں سولہ سو سے تین ہزار روپے ، ضلعی ہیڈ کوارٹرز مین ڈیڑھ ہزار سے سولہ سو روپے، جبکہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز کے دیگر علاقوں کے رہائشی مکانات پر آٹھ سو سے نو سو روپے سالانہ ٹیکس وصول کیاجائے گا۔

صوبائی ہیڈ کوارٹر میں پندرہ سے اٹھارہ مرلے تک درجہ اے مکانات پر سالانہ 4800 روپے ، درجہ بی 4700 روپے جبکہ درجہ سی 4500 روپے ٹیکس وصولی جاری رہے گی۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ اسٹامپ پیپر کی مالیت بھی 100 روپے کے بجائے 150 روپے رہے گی،  تمباکو کی مختلف اقسام پر عائد ڈیویلپمنٹ سیس میں کیے گئے ردوبدل کے مطابق ورجینا تمباکو 12 روپے کلو، وائٹ سیف پر 6 روپے سیس وصول کیا جائے گا، نسوار میں استعمال کیے جانے والے تمباکو پر 5 روپے ٹیکس وصولی جاری رہے گی۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کی ملکیتی عمارات کو پراپرٹی ٹیکس سے استثنیٰ حاصل رہے گا، ایسی سرکاری عمارات جو منافع کے حصول کے لیے لیز پر دی گئی ہیں ان پر سالانہ کرایہ کی بنیاد پر پراپرٹی ٹیکس عائد رہے گا، مساجد ، گرجا گھروں، گوردواروں سمیت دیگر مذہبی عبادت گاہیں پراپرٹی ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گی۔