28

وفاقی حکومت کا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر نظرثانی کا فیصلہ

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل پرنظرثانی کا فیصلہ کرلیا۔ اٹارنی جنرل نے دوران سماعت سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا۔ چیف جسٹس نے حکومتی فیصلے کو خوش آئند قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق معاملے کی مختصر سماعت کی۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر نظر ثانی کا فیصلہ کرلیا، اب سپریم کورٹ کی مشاورت سے قانون میں ترمیم ہوگی۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی سے قوانین میں ہم آہنگی آئے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور نظرثانی قانون دونوں میں کچھ شقیں ایک جیسی ہیں، دونوں قوانین کے باہمی تضاد سے بچانے کیلئے دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے معاملے سے ڈیل کررہے ہیں، ان معاملات پر مشاورت ہوگی تو تنازع ہی نہیں ہوگا، آپ چاہتے ہیں تو فل کورٹ والے نکتے پر دلائل سن لیتے ہیں، اگر قانون پر نظرثانی کررہے ہیں تو یہ ایک اکیڈیمک مشق ہوگی، ہم اس تنازع کا پہلا سکوپ طے کر لیتے ہیں، سکوپ طے کرنے سے سماعت کا طریقۂ کار بھی فوکس ہوجائے گا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدلیہ کے حوالے سے یک طرفہ قانون سازی نہیں ہونی چاہئے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کے حوالے سے ہدایات نہیں دے سکتے، ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت غلطیاں درست کرے اور کیس چلتا رہے، یا پھر قانون بنتے رہیں اور ہم سماعت کرتے رہیں، دیکھتے ہیں کون تیز ہے؟۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ حکومت نے اب تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اخبار میں پڑھا تھا کہ ریکارڈ دینے سے انکار کیا گیا ہے، عدالت نے تمام ریکارڈ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے حاصل کرلیا ہے۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو پیشکش کی کہ ریکارڈ درکار ہے تو ہم دے دیتے ہیں۔ مزید کہا کہ آج کی سماعت کا مناسب حکم جاری کیا جائے گا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ آپ ہم سے نہ کہیں کہ ہم پارلیمنٹ کو کہیں، سپریم کورٹ کے انتظامی امور سے متعلق ہم سے مشورہ کریں، اگر مشاورت ہوگی تو کھنچاؤ سے اجتناب ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالت چاہے تو فل کورٹ کے معاملے پر دلائل سن سکتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ خود قوانین کا جائزہ لے رہے ہیں تو فل کورٹ پر دلائل بے معنی ہوں گے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت اٹارنی جنرل کی استدعا پر آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

##ق لیگ کا جواب جمع

مسلم لیگ ق کی جانب سے بھی سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا گیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف دائر درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

مسلم لیگ ق نے جواب میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ مذکورہ ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا، ایکٹ کا سیکشن 4 سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو وسیع کرتا ہے، سیکشن 3 عدلیہ کے 184 تین کے اختیار کو کم نہیں کرتا۔

جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانون سوموٹو کا اختیار سینئر ججز سے مل کر استعمال کرنے کا کہتا ہے، کمیٹی کی جانب سے مقدمات مقرر کرنے سے عوام کا اعتماد بڑھے گا۔

ق لیگ کا کہنا ہے کہ سابقہ چیف جسٹس صاحبان نے مذکورہ اختیارات کا بے دریغ استعمال کیا، آزاد عدلیہ کا مطلب ہر جج کے بغیر دباؤ اور مداخلت فرائض کی انجام دہی ہے۔

حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت کے دستخط کے بعد قانون بن گیا۔

عدالت نے نئے قانون پر عمل درآمد روکنے کا عبوری حکم دیا تھا۔عدالت نے گزشتہ سماعت پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے نیا قانون کالعدم قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔