171

میمو گیٹ اسکینڈل: ڈی جی ایف آئی اے، سیکریٹری داخلہ اور خارجہ طلب

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے میمو گیٹ اسکینڈل میں سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کو طلب کر لیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے میموگیٹ کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ اور ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش ہو کر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے آگاہ کریں۔

چیف جسٹس نے سینئر وکیل اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ وہ کس کی طرف سے کیس کی پیروی کر رہے ہیں جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’میں منصور اعجاز کی طرف سے ہوں جو اس کیس میں واحد گواہ ہیں‘۔

چیف جسٹس نے کیس کا جائزہ لینے کے بعد حسین حقانی کی نظرثانی کی درخواست عدم پیروی کی وجہ سے خارج کردی۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سابق سفیر کی جانب سے وکیل اے اور آر کو کوئی ہدایت نہیں دی گئی۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے اپنے دلائل کے دوران کہا گیا کہ حسین حقانی نے پاکستان آنے سے انکارکردیا جبکہ وہ وطن واپس آنے کی یقین دہانی کروا کر گئے تھے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ سیکرٹری داخلہ کو حسین حقانی کو وطن واپس لانے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حسین حقانی کی واپسی کیلئے وزارتِ داخلہ نے عدالت کے حکم پر کیا اقدامات کیے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میرے خیال سے وزارتِ داخلہ نے اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے‘۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی نے واپس آنے کا وعدہ کیا تھا، ان کی روانگی کے وقت اٹانی جنرل کون تھے جس پر رانا وقار نے بتایا کہ مولوی انوار الحق اس وقت اٹارنی جنرل تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حسین حقانی کے معاملے میں کوئی نا کوئی ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہو گی، میمو کمیشن کس کے کہنے پر سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا اور اس حوالے سے رجسٹرار آفس سے بھی جواب طلب کیا جائے گا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ حسین حقانی کو واپس کیسے لایا جائے گا جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سابق سفیر کی واپسی کے لیے ہر ممکن اقدامات کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ عدالت مہلت دے تو تمام اقدامات سے آگاہ بھی کیا جائے گا۔

درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ’حسین حقانی نے کیس دوبارہ کھولنے کو سیاسی تماشہ قرار دیا اور وہ کہتے ہیں کہ بابا رحمتے کے کہنے پر واپس نہیں آؤں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تمام پرانے مقدمات مقرر کرنے کا حکم دیا تھا، تو اس میں کیا سیاسی تماشا ہے؟

انہوں نے کہا کہ سرکاری وکیل نے یقین دہانی کروائی کہ سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کریں گے۔