36

سپریم کورٹ کا عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنیکا حکم

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کی آمد کے موقع پر کوئی پارٹی رہنما یا کارکن عدالت نہیں آئے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جہاں سے گرفتاری ہوئی تھی سارا عمل وہیں سے ریورس کرنا ہوگا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کی گرفتاری کیخلاف دائر درخواست پر سماعت شروع کردی، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے، سینئر وکیل حامد خان دلائل دینے پہنچ گئے۔

پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کیخلاف گزشتہ روز سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

جسٹس اطہر نے مزید پوچھا کہ کیا انصاف تک رسائی کے حق کو ختم کیا جا سکتا ہے؟، یہی سوال ہے کہ کسی کو انصاف کے حق سے محروم کیا جاسکتا ہے، کیا مناسب نہ ہوتا کہ نیب رجسٹرار سے اجازت لیتا، نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟۔

وکیل عمران خان حامد خان نے جواباً کہا کہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کرانے اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے، بایو میٹرک کرارہے تھے کہ رینجرز نے کمرے پر ہلہ بول دیا، رینجرز کی جانب سے دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا، بایو میٹرک کرانا عدالتی عمل کا حصہ ہے، عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور گرفتاری پُرتشدد ہوئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا، عدالتی حکم کے مطابق درخواست دائر ہوئی تھی مگر مقرر نہیں ہوئی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا بایومیٹرک کے بغیر درخواست دائر ہوسکتی ہے؟۔ حامد خان نے جواب دیا کہ بایومیٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے، نیب نے ایک ملزم کو سپریم کورٹ کی پارکنگ سے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل عدالت نے گرفتاری واپس کروائی اور نیب کیخلاف کارروائی ہوئی تھی، نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی، نیب کی اسی یقین دہانی پر 9 نیب افسران توہین عدالت سے بچے تھے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ عمران خان کو کتنے لوگوں نے گرفتار کیا؟۔ سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ عمران خان کو 80 سے 100 لوگوں نے گرفتار کیا، 100 رینجرز اہلکار عدالتی احاطے میں آئیں تو عدلیہ کا احترام کہاں گیا، 100 لوگوں کے داخلے سے تو احاطے میں خوف پھیل جاتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ سپریم کورٹ سے آپ کیا چاہتے ہیں؟۔ عمران خان کے وکیل نے استدعا کی کہ سابق وزیراعظم کی رہائی کا حکم دیا جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت میں سرینڈر کرنیوالا گرفتار ہو تو کیا کوئی عدلیہ پر اعتماد کرے گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ سپریم کورٹ سے آپ کیا چاہتے ہیں؟۔ عمران خان کے وکیل نے استدعا کی کہ سابق وزیراعظم کی رہائی کا حکم دیا جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت میں سرینڈر کرنیوالا گرفتار ہو تو کیا کوئی عدلیہ پر اعتماد کرے گا، عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کا عمل سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا، عدالت صرف انصاف تک رسائی کے حق کا جائزہ لے گی۔

شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کارروائی کے دوران عدالتی عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وارنٹ کی قانونی حیثیت کا نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے۔

سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ عمران خان پر حملہ ہوا اور سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی، عمران خان دہشت گردوں کے ریڈار پر تھے، رینجرز نے جس انداز سے گرفتاری کی اس کی مثال نہیں ملتی، گرفتاری کے وقت نیب کا تفتیشی افسر بھی موجود نہیں تھا، عمران خان کو ججز گیٹ سے رجسٹرار کی اجازت کے بغیر لے جایا گیا۔

سابق وزیراعظم عمران خان کو منگل کی سہ پہر اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ مختلف مقدمات میں ضمانت کیلئے وہاں پہنچے تھے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کو نیب نے رینجرز کی بھاری نفری کے ہمراہ گرفتار کیا، انہیں پہلے نیب راولپنڈی آفس اور بعد ازاں پولیس ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد منتقل کیا گیا۔

تحریک انصاف سربراہ کیلئے پولیس ہیڈ کوارٹرز کے گیسٹ ہاؤس میں ہی خصوصی طور پر عدالتیں قائم کی گئیں، جس نے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں نیب کے حوالے کیا، تاہم قومی احتساب بیورو ان سے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں ہی تفتیش کرے گا، نیب نے عدالت سے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی تھی۔

قومی احتساب بیورو سابق وزیراعظم عمران خان سے 50 ارب روپے سے زائد کے القادر ٹرسٹ کیس میں باضابطہ تحقیقات کا آج سے آغاز کرے گا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نیب کیسز میں گرفتاری کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی ہے، جس میں عدالت عظمیٰ سے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کی تحقیقات کرانے اور ان کی رہائی کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں وفاق، وزارت دفاع اور نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔ وکیل نے استدعا کی ہے کہ عدالت عظمیٰ عمران خان کی حفاظت یقینی بنانے کا حکم دے۔

دوسری جانب ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کئی اہم رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کیخلاف جی ایچ کیو، کور کمانڈر لاہور اور دیگر سرکاری عمارتوں اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات میں مختلف شہروں میں کئی مقدمات بھی درج کرلئے گئے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ تین خواتین سمیت 7 رہنماؤں اور 200 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر پرتشدد مظاہروں اور املاک کو نقصان پہچانے کا الزام ہے۔

تین روز سے جاری مظاہروں کے دوران پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں فائرنگ سے 10 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں، جاں بحق افراد میں پی ٹی آئی کارکنان بھی شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں پولیس اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد ہے۔