29

القادر ٹرسٹ کیس: عمران خان کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار عمران خان کو پولیس لائنز اسلام آباد میں قائم عدالت میں پیش کردیا گیا، نیب نے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، تاہم عدالت نے سابق وزیراعظم کا 8 روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں نیب کی تحویل میں دے دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے خاص معالج ڈاکٹر فیصل کو بلانے کی استدعا کردی، بیان دیا یہ انجکشن لگاتے ہیں بندہ آہستہ آہستہ مرجاتا ہے، ڈر ہے میرے ساتھ مقصود چپڑاسی والا کام نہ ہو۔

سابق وزيراعظم عمران خان کو سيکيورٹی خدشات پر اسلام آباد پوليس ہيڈ کوارٹرز پہنچایا گیا، پی ٹی آئی چیئرمین کیخلاف کیسز کی سماعت کیلئے نيب کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ پوليس لائن ميں شفٹ کردیئے گئے تھے۔

پولیس گیسٹ ہاؤس میں قائم احتساب عدالت میں عمران خان کیخلاف کیس کی سماعت جج محمد بشیر کے سامنے جاری ہے، سابق وزیراعظم کو عدالت میں پیش کردیا گیا، نیب حکام نے پی ٹی آئی چیئرمین کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ مانگ لیا، عمران خان کے وکلاء نے مخالفت کردی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ کیس میں نیب کا دائرہ اختیار ہی نہیں بنتا، نیب نے انکوائری رپورٹ بھی شیئر نہیں کی، فیئر ٹرائل عمران خان کا بنیادی حق ہے، عمران خان کا ٹرائل قانون کے مطابق اوپن کورٹ میں ہونا چاہئے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مطفر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو گرفتاری کے وقت وارنٹ دیئے گئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے گرفتاری کے وقت نہیں، نیب منتقل کرنے پر وارنٹ دیئے گئے۔

عمران خان کے وکلاء نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے کیس کا تمام ریکارڈ ہم سے شیئر نہیں کیا، جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کے سامنے ریکارڈ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں مزید کہا کہ برطانیہ میں ریکور کی گئی رقم بحریہ ٹاؤن کے کھاتے میں ڈالی گئی، شہزاد اکبر نے کابینہ میٹنگ میں عمران خان کو بریفنگ دی، عمران خان نے ریکارڈ کو سیل رکھنے کی منظوری دی۔

احتساب عدالت نے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے اور نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کی وجوہات جمع کرائے جانے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا۔ عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب پولیس لائن اسلام آباد میں ہی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے تفتیش کرے گی۔

عمران خان نے دوران حراست قتل کئے جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ انجکشن لگاتے ہیں، بندہ آہستہ آہستہ مرجاتا ہے، گھنٹے سے واش روم نہیں گیا، ڈر ہے میرے ساتھ مقصود چپڑاسی والا کام نہ ہو۔

عمران خان کی میڈیکل رپورٹ بھی جمع

میڈیکل بورڈ نے سابق وزیراعظم عمران خان کو تندرست قرار دیتے ہوئے رپورٹ نیب حکام کے حوالے کی تھی۔ عمران خان کا طبی معائنہ پمز اور پولی کلینک کے ڈاکٹروں نے کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کا بلڈ پریشر، شوگر لیول، نبض اور دل کی دھڑکن نارمل تھی، بلڈ سی پی، ایل پی، آر ایف ٹی اور ایل ایف ٹی بھی کیا گیا۔

عمران خان کی نیب آفس سے پولیس ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد منتقلی

اس سے قبل آج چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کو تفتیش کیلئے پولیس لائنز ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد منتقل کیا گیا، انہیں سخت سیکیورٹی میں نیب راولپنڈی کے آفس سے پولیس لائنز منتقل کیا گیا، پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کو سب جیل اور اس میں موجود گیسٹ ہاؤس کو ایک روز کیلئے عدالت کا درجہ دینے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق عمران خان کیخلاف مقدمات کی سماعت پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں ہوگی، ڈسٹرکٹ کچہری میں ہونے والے مقدمات کی سماعت بھی یہیں ہوگی، نیب کی درخواست پر وفاقی حکومت نے گیسٹ ہاؤس کو سب جیل کا درجہ دے دیا، نیب کی جانب سے ڈپٹی ڈائریکٹر میاں عمر کی سربراہی میں ٹیم عمران خان سے تفتیش کرے گی۔

عمران خان کیخلاف کیسز کی سماعت کیلئے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر اور عملہ پولیس ہیڈ کوارٹرز میں موجود گیس ہاؤس پہنچ گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو کچھ دیر بعد احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا، نیب نے عمران خان کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وکلاء کی ٹیم بھی پولیس لائنز عدالت پہنچ گئی، جس میں خواجہ حارث، بابر اعوان اور فیصل چوہدری شامل ہیں۔

عمران خان کے وکلاء کی ٹیم کو مرکزی دروزے سے جانے کی اجازت نہیں ملی، پولیس نے انہیں عقبی دروازے سے پولیس لائنز جانے کی ہدایت کردی۔

فیصل چوہدری نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اندر جانے نہیں دیا جارہا، آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، ملک میں اس وقت کوئی قاعدہ و ضابطہ نہیں، کل اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ ہوا اور عدالت نے اسے جائز قرار دیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے کل کے فیصلے پر مایوسی ہوئی۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ عدالت پر حملہ کرکے شیشے توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا، ایسا کبھی نہیں کیا جاتا، ہمیں بتاتے خود گرفتاری دے دیتے، گرفتاری دینے کیلئے عمران خان خود بھی تیار تھے، عدالتیں منتقل کرنے کی ہمیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی، توشہ خانہ کیس کی سماعت کرنیوالے جج پر ہمیں اعتبار نہیں، ہمیں ان عدالتوں پر اعتماد نہیں، توشہ خانہ کیس سننے والے جج کیخلاف درخواست دیں گے۔

اسد عمر گرفتار

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنماء اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے وفاقی پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ذرائع کے مطابق انہیں تھانہ رمنا منتقل کیا گیا ہے، تاحال ان کی گرفتاری کی وجوہات نہیں بتائیں گئیں۔

اسلام آباد میں ریڈ الرٹ جاری

پاکستان تحریک انصاف کے ملک بھر میں احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد مین دفعہ 144 کے بعد ریڈ الرٹ بھی جاری کردیا گیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق شہر اقتدار میں تعینات پولیس اہلکاروں کو اسلحہ ساتھ رکھنے کی ہدایت کردی گئی، گزشتہ روز احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں کے اسلحہ ساتھ رکھنے پر پابندی تھی، اہم تنصیبات پر رینجرز جبکہ چوک اور چوراہوں پر مسلح پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔

اسلام آباد پولیس ترجمان کے مطابق سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کیخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے، شہر بھر سے اب تک 100 سے زائد شرپسندوں کو گرفتار کیا جاچکا۔

گزشتہ روز کی صورتحال

اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کے ہاتھوں احاطہ عدالت سے گرفتار ہونے والے تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا تھا۔

اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو رہا کرنے کی درخواست مسترد کرکے ان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیدیا، عمران خان کو کل نیب کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔

ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری پرسیکریٹری داخلہ اورآئی جی کوتوہین عدالت کےنوٹس جاری کر دیئے، اور احاطہ عدالت میں توڑ پھوڑ کے واقعات پرانکوائری کا حکم دیا ہے۔

اس سے قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری قانونی ہے یا نہیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مناسب فیصلہ جاری کریں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت دوربارہ شروع ہوئی توڈی جی نیب عرفان بیگ اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر پیش ہوئے۔

چیف جسٹس جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ نیب عمومی طور پر وارنٹس پر عمل کیسے کرتا ہے؟ جواب میں سردار مظفر نے کہا ہم نے وزارت داخلہ سے کہا تھا کہ وارنٹ پرعمل کرائیں۔

چیف جسٹس سوال کیا کہ کیا جب گرفتاری ہوئی تو نیب کا کوئی افسر موجود تھا؟ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے بتایا کہ تفتیشی ندیم باہر بیلا روڈ پر موجود تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء سے بدسلوکی ہوئی اور یہ سب اس کمپاؤنڈ میں ہوا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس کمپاؤنڈ سے کی گئی گرفتاری مؤثر رہ سکتی ہے؟ جس کے جواب میں سردارمظفر نےکہا گرفتاری کے لئے تمام تر طریقے اپنائے جاسکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ میرا سوال اس وقت یہ ہے کیا گرفتاری قانونی ہے یا نہیں؟ کیا نیب ہر کیس میں ایسا ہی کرتی ہے جیسے آج کیا؟ پہلے آپ نے سپریم کورٹ میں ایک کیس میں ایسا کیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ، کیا عدالتوں کے ساتھ بھی ایسا کیا جاسکتا ہے؟ جواب میں خواجہ حارث نے کہا کہ اس کیس میں عدالت نے ملزمان کو فری کردیا تھا، جبکہ سردار مظفر نے کہا کہ گرفتاری پاکستان میں کسی بھی جگہ سے ہوسکتی ہے،قانون کے مطابق گرفتاری کے وقت کھڑکی دروازہ بھی توڑا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مگر عدالتوں کو تو سمجھا جاتا تھا کہ ان کا ایک وقار ہے۔

خواجہ حارث نے نیب کے ساتھ خط و کتابت کا ریکارڈ پیش کیا اور کہا کہ نیب سے پوچھیں انکوائری انوسٹی گیشن میں کب بدلی؟ خواجہ حارث نے کہا کہ نیب پابند تھا کہ ہمیں انکوائری رپورٹ فراہم کرتا،نیب کو لکھا کہ آپ نے سیکشن 18 کے تحت انکوائری رپورٹ دینی ہے،نیب کی ایسی بدنیتی پہلے کبھی سامنے نہیں آئی ۔

دریں اثنا صدر ہائیکورٹ بار نوید ملک بھی عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ کیا گیا ہے،وکلاء کو ایسے مارا گیا جیسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

چیف جسٹس عامر فارق نے کہا کہ نیب ترامیم آئی تو اسی لئے تھیں ناں کہ تحفظ دیا جاسکے،آپ نے اگرچہ نیب کی یہ ترامیم چیلنج بھی کررکھی ہیں، کیا یہ ترامیم پھر ساری اچھی ہیں؟

خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں خدشہ تھا نیب کچھ ایسا کرنے جارہا ہے،اسی لئے ہم انکوائری رپورٹ لینے کی آج درخواست دائر کررہے تھے،القادر کیس میں ضمانت کی درخواست بھی دائر کی جارہی تھی،عمران خان بائیومیٹرک کرارہے تھے جب گرفتار ہوئے، انصاف تک رسائی کے اصول کی خلاف ورزی کی گئی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فارو ق نے کیس کافیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کی گرفتار ی قانونی ہے یا نہیں، مناسب حکم جاری کریں گے۔

اس سے قبل چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی نیب راولپنڈی اور پراسیکیوٹر جنرل آدھے گھنٹے میں عدالت میں پیش ہوں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری پر 15 منٹ میں جواب مانگا تھا 45 منٹ گزر گئے، سیکریٹری داخلہ کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب کیا وفاقی کابینہ کو بلاؤں۔ آئی جی اسلام آباد عدالت عالیہ میں پیش ہوگئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے آئی جی اسلام آباد کو 15 منٹ میں طلب کرلیا۔

دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو آئی جی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے، جنہوں نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے گرفتار کیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکریٹری داخلہ کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 15 منٹ میں جواب مانگا تھا 45 منٹ ہوگئے، کیا وفاقی کابینہ کو بلاؤں۔

خیال رہے کہ اب سے کچھ دیر قبل نیب نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کرلیا۔

توشہ خانہ کیس ہے کیا؟

اگست 2022 میں الیکشن کمیشن میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایم این ایز کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کی نااہلی کے لیے ایک ریفرنس بھیجا تھا۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔‘

ریفرنس کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ظاہر نہیں کیا اور یہ تحائف صرف سال 2020-21 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ سکینڈل اخبارات کی زینت بن گیا۔

عمران خان اور ان کی جماعت نے ان تمام کیسز کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔

الیکشن کمیشن نے اکتوبر 2022 میں ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ عمران خان نے اثاثوں کی غلط تفصیلات جمع کرائیں اور کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہوئے۔ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم دیا تھا۔