ادھار لیکر واپس نہ کرنا کوئی نئی بات نہیں لیکن کچھ لوگ پیسے واپس نہ کرنے کیلئے اس حد تک چلے جاتے ہیں جسے سن کر آپ کو حیرانی ہوگی۔
غیر ملکی ویب سائٹ کے مطابق انڈونیشیا میں پیش آئے ایک تازہ واقعے میں ایک خاتون نے 60 ہزار روپے قرض کی ادائیگی سے بچنے کیلئے اپنی موت کا ڈرامہ رچایا۔
انڈونیشیائی خاتون لیزا دیوی نے پہلے اپنے قرض کی تاریخ میں توسیع مانگی جس پر اسے قرض دینے والی خاتون نے مزید وقت دے دیا لیکن جب دوسری ڈیڈ لائن قریب آئی تو خاتون کے بیٹے نے فیس بک پر اس کی المناک موت کا اعلان کیا اور ساتھ ہی اسکی میت کی تصاویر بھی شیئر کیں۔
ان تصاویر میں خاتون کفن پہن کر لیٹی ہوئی ہے اور اسکی ناک میں روئی بھی لگی ہے، لیزا کے بیٹے نے فیس بک پراپنی ماں کی میت کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ انکا ایک افسوناک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا ہے۔
لیزا دیوی اور اسکو قرض دینے والی خاتون مایا گناوان ایک آن لائن آریسن گروپ کے ممبر تھے جو انڈونیشیا کا ایک مقبول لاٹری (بی سی) سسٹم ہے، دونوں کی کبھی ایک دوسرے سے ذاتی طور پر ملاقات نہیں ہوئی اور صرف انٹرنیٹ پر ہی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
لیزا دیوی کو مایا گناوان نے 4.2 ملین IDR قرض اس شرط پر دیا تھا کہ وہ اسے 20 نومبر تک واپس کرے گی لیکن مقررہ تاریخ پر وہ قرض واپس نہ کرسکی اور مزید وقت مانگا جس پر اسے خاتون نے 6 دسمبر تک مزید ٹائم دیا لیکن وہ اس تاریخ پر بھی پیسے واپس نہ کرسکی۔
لیزا دیوی سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب نہ ملا، اسی اثناء میں لیزا کے بیٹے کی یس بک پوسٹ میں 11 دسمبر کو مایا گناون کو یہ جان کر صدمہ پہنچا کہ اسکی موت ہوگئی ہے۔
لیزا دیوی پرمیتا کے بیٹے نے فیس بک پر لکھا کہ اسکی والدہ ایک کار حادثے میں المناک طور پر ہلاک ہوئیں۔
اس خبر پر شروع میں تو مایا گنوان کو خاتون کی المناک موت پر کافی دکھ ہوا لیکن پھر اس بات پر وہ شک میں پڑگئی کہ پرمیتا کے بیٹے نے اسکی تدفین کیلئے جس مقام کا اعلان کیا تھا وہ انکے گھر سے غیر معمولی طور پر کافی دور تھی، بعد میں تھوڑی تحقیق کرنے پر یہ حقیقت کھل گئی کہ واقعی انہوں نے پیسے واپس نہ کرنے کیلئے ڈرامہ رچایا ہے۔
خاتون کے بیٹے نے مبینہ طور پر اعتراف کیا کہ یہ سارا معاملہ اس کی ماں نے اپنے قرض کی ادائیگی سے بچنے کے لیے رچایا ہے، بدقسمتی سے اس انکشاف کے بعد بھی لیزا دیوی پرمیتا کا ابھی تک کہیں پتہ نہیں چلا اور مایا کو ابھی تک اس کی رقم واپس نہیں ملی ہے۔