41

پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری ہمارے لئے بڑا چیلنج ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری ہمارے لئے بڑا چیلنج ہے۔

سپریم کورٹ میں ریکوڈِک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی۔

حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور سرمایہ کار کمپنی بیرک گولڈ کے وکیل مخدوم علی خان عدالت میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ پچھلے سال تک پاکستان میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ 280 ملین ڈالر تھی، ریکوڈک منصوبے سے ملک میں بھاری براہ راست سرمایہ کاری آئے گی، تمام فارن کوالیفائیڈ سرمایہ کاروں کو ون ونڈو آپریشن میں لا رہے ہیںِ۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ حکومت اپنے خدشات دور کرنے کیلئے عدالت کیوں آئی ہے، سرمایہ کاری سے جڑے تنازعات عدالتوں میں کیوں لاتے ہیں، سرمایہ کاری سے جُڑے تمام تنازعات عدالت سے باہر حل کرنے کا طریقہ کار بنائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ کاروبار کی دستاویزات نہ ہونا ہے، ضروری وسائل کی پیداوار کے بغیر بین الاقوامی قرض میں اضافہ ہوا ہے، فیٹف نے بھی پاکستان پر شفاف سرمایہ کاری اور ٹرانزیکشنز پر زور دیا تھا، فارن انویسٹمنٹ کی حد مقرر نہ ہوئی تو مجوزہ قانون سازی سے نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ موجودہ قانون کے تحت کیوں ریکوڈک منصوبے میں چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔

صدارتی ریفرنس کے دوسرے سوال پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دوسرا سوال فارن انویسٹمنٹ بل 2022 کے بنیادی حقوق سے متصادم ہونے سے متعلق ہے، آئینی آرٹیکل 144 کے تحت وفاق کا بنائے گئے قانون میں صوبے ترمیم کر سکتے ہیں، ریکوڈک معاہدے کیلئے قانون سازی کا مقصد بیرونی سرمایہ کاری یقینی بنانا ہے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ حکومت عدالت سے مجوزہ قانون سازی کی توثیق کیوں چاہتی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت بتا دے کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس بیرونی سرمایہ کاری کے تحفظ کی قانون سازی کا اختیار ہے، فارن انویسٹمنٹ بل 2022 مستقبل کی تمام تر سرمایہ کاری پر لاگو ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے معاشی تحفظ بل 1992 منظورکیا تھا جو عدالتوں میں چینلج نہیں ہوا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ منصوبے میں50 فیصد شیئرز پاکستان کے ہیں، تنازع ہوا تو اثر پاکستان پربھی پڑے گا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں نظام عدل جدید و مستحکم کرنا ہوگا تاکہ غیر ملکی اعتماد کرسکیں، پاکستان کے عدالتی نظام اور عالمی نظام انصاف میں بہت فرق ہے، پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری ہمارے لئے بڑا چیلنج ہے۔

سرمایہ کار کمپنی بیرک گولڈ کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل

سرمایہ کار کمپنی بیرک گولڈ کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ نوکنڈی سے ریکوڈک تک سڑک کی دیکھ بھال کمپنی کی ذمہ داری ہو گی، بلوچستان اور چاغی اضلاع کی سیکیورٹی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہوگی، جب کہ ریکوڈک کان، علاقے اور عملے کے تحفظ کی ذمہ دار کمپنی ہو گی۔

مخدوم علی خان نے بتایا کہ ساڑھے 7 ہزار قلیل المدتی، 4 ہزار طویل المدتی ملازمتیں میسر ہوں گی، کمپنی گوادر تک 680 کلومیٹر زیرِ زمین پائپ لائن بچھائے گی، دھاتوں کو کرش کر کے پانی میں ڈال کر پائپ لائن سے بندرگاہ تک پہنچایا جائےگا، اور دھاتوں کو پانی سے الگ کر کے ریفائن ہونے کیلئے بندرگاہ سے بیرونِ ملک بھیجا جائے گا۔

کمپنی کے وکیل نے بتایا کہ کنسٹرکشن کا ایک فیصد جب کہ سالانہ آمدن کا 0.4 فیصد سماجی شراکت داری پر خرچ ہوگا، معاہدے میں شفافیت کا خاص خیال رکھا گیا ہے، حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، غیر ملکی کمپنی کو دی گئی رعایت واپس لی گئی تو اُس کو پبلک کیا جائے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک سیکشن افسر نوٹیفکیشن کے ذریعے رعایت واپس لےلے،رعایت واپس لینے پر کمپنی بین لاقوامی ثالثی عدالت سے رجوع کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

کمپنی کے وکیل نے مزید دلائل میں کہا کہ کمپنی فزیبلٹی اسٹڈیز پر240 ملین ڈالر خرچ کرے گی، سامان پورٹ پر پہنچتے ہی پاکستان کو85 فیصد ادائیگی ہوجائے گی، باقی 15 فیصد ادائیگی منزل پر مارکیٹ ریٹ اور کوالٹی کے مطابق ہوگی۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک سے سونے اور تانبے کے علاوہ کوئی دوسری دھات نہیں نکلے گی، دیگر معدنیات نکلیں تو طریقہ کار معاہدے میں درج ہے، یورینیم اور پلاٹینم جیسی اسٹرٹیجک دھاتیں نکلیں تو پاکستان کو بلامعاوضہ ملیں گی۔

وکیل نے کہا کہ اراضی خریدنے کا معاوضہ بیرک گولڈ کمپنی ادا کرے گی، نوکنڈی سے پنجگور تک سڑک بھی کمپنی بنائے گی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بین الاقوامی معاہدوں میں دیگر ممالک کے ماہرین قانون کی بڑی تعداد بھی شریک ہوتی ہے، معدنیات کی برآمد پر حکومت پاکستان کی مسلسل نگرانی ہوگی، معاہدے تک پہنچنے کیلئے ساڑھے3 سال لگے، یہ شفاف معاہدہ ہے۔

صدارتی ریفرنس پر کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کی مزید سماعت 24 نومبر تک ملتوی کردی۔