21

ایک جج کی وجہ سے سندھ ہائی کورٹ کے ججز کی شہرت کو نقصان پہنچا، جسٹس سجاد کا چیف جسٹس کو خط

سپریم کورٹ کے جج جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس کو ایک اور خط لکھا جس میں انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے ججز کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات پر مایویسی کا اظہار کیا ہے۔

سپریم کورٹ میں پانچ ججز کی تعیناتی پر جوڈیشل کمیشن اجلاس کے معاملے پر جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا جس میں انہوں نے ایک جج کی طرف سے سندھ ہائیکورٹ کے ججز کے وقار پر اٹھائے گئے سوالات پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

سجاد علی شاہ نے اپنے خط میں لکھا کہ جج نے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں سندھ سے دو وکلاء کی رائے پر انحصار کر کے ججز کے کردار پر سوال اٹھایا، سندھ ہائیکورٹ کے ججز شفیع صدیقی اور حسن اظہر رضوی کے کردار پر وکلاء نمائندے اختر حسین نے سینیارٹی کے علاوہ کوئی اعتراض نہیں کیا۔

انہوں نے لکھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس اس وقت جوڈیشل کمیشن کے رکن ہیں اور سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن ممبران کے علاوہ دو موجودہ ججز بھی سندھ ہائیکورٹ سے ہی ہیں، ججز کے کردار سے متعلق سوالات ان ججز سے پوچھے جا سکتے تھے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان سے سندھ ہائیکورٹ کے ججز کی شہرت خراب ہونے پر اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ سندھ ہائیکورٹ کے تجویز کردہ ججز کے وقار پر کوئی شک نہیں ہے، ایک یا دو وکلاء کی رائے پر انحصار کر کے سندھ ہائیکورٹ کے ججز کے بارے رائے قائم کرنا افسوسناک ہے، ایک جج کی طرف سے سندھ ہائیکورٹ کے ججز کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس اپنے تمام تر اختیارات کواستعمال کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے ججز کی شہرت واپس کرنے کے اقدامات کریں کیونکہ وہ اپنی صلاحیتوں پر نامزد ہوئے اور انہوں نے خود سپریم کورٹ میں تعیناتی کی درخواست نہیں کی تھی۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے لکھا کہ ’اٹارنی جنرل نے صرف جوڈیشل کمیشن اجلاس ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی، اس دوران جب ایک جج نے نامزد ججز کے نام واپس لینے کی درخواست کی تو اٹارنی جنرل نے کہا نہیں بس ملتوی کر دیں‘۔

انہوں نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ رواں ماہ ریٹائر ہو رہا ہوں اس لیے اگلے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا حصہ نہیں ہوں گا،  میرے بعد ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں یہ خط ریکارڈ پر لایا جائے۔