23

ن لیگ کا مخدوش مستقبل

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔ ہر چیز کی تقدیر میں ایک مخصوص مدت کے بعد کمزور ہو کر معدوم ہو جانا لکھا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بلا کے ذہین اور منجھے ہوئے سیاستدان تھے۔ ایوب خان کی حکومت کے خلاف اُن کی تحریک نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ عوام کے پسے ہوئے طبقوں نے یہی جانا کہ مسیحا آ گیا ہے اور اب ان کی قسمت بدلنے والی ہے۔

بھٹو صاحب کا روٹی، کپڑے، مکان کا نعرہ زبان زدِ عام ہو گیا۔ ضلع چکوال میں ہمارا قصبہ ایک بڑا قصبہ اور تحصیل ہیڈکوارٹر ہے۔ لوگ بھٹو صاحب کے ایسے دیوانے ہوئے کہ ڈھونڈنے سے بھی کوئی گھر ایسا نہیں ملتا تھا جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کا جھنڈا نہ لگا ہو۔ پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بھٹو صاحب نے با محاورہ اگر کھمبے کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ دیا تو عوام نے اُسے ہی منتخب کیا۔ یہ سحر کوئی تین دہائیوں تک طاری رہا۔ وقت نے پلٹا کھایا اور پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت کا گراف گرنا شروع ہوا اور آج حالت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ووٹر کا گھر ڈھونڈنا مشکل ہو گیا ہے۔

 

میاں نواز شریف بھی ایک مقبول لیڈر کے طور پر ابھرے۔ ان کے دور میں شاہرات پر بہت کام ہوا۔ نئے ہوائی اڈے بنے۔ ٹیلی کیمونیکیشن کی فیلڈ میں حیرت انگیز ترقی ہوئی غرضیکہ تقریباً ہر میدان میں پاکستان آگے بڑھا۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان نے تُرکی بہ ترکی جواب دیا اور پاکستان ایک نیوکلر پاور بن کر سامنے آیا۔ جلد مسلم لیگ ن ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن گئی اور میاں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت مل گئی۔ میاں صاحب کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کا اسٹیبلشمنٹ کے وفادار کل پرزے جناب غلام اسحاق جیسے طاقتور صدر کے سامنے ڈٹ جانا بھی تھا۔

میاں صاحب بہت خوش قسمت بھی رہے۔ ان کے تینوں ادوار میں ہونے والی اہم تعیناتیوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ اُن کو آدمیوں کی پہچان نہیں ہے۔ ان کی ہوئی اکثر تعیناتیاں ان کے گلے پڑیں۔ ان کے پروردہ اکثر سیاستدان ان کے کٹر مخالف بنے لیکن ان سب غلطیوں کے باوجود عوام نے ان کو سر پر بٹھائے رکھا اور جب بھی موقع ملا اقتدار میں لے آئے۔

جناب عمران خان بہت مقبول اور پُرکشش لیڈر ہیں لیکن ان کے دورِ اقتدار میں بھی پنجاب میں اکثر ضمنی الیکشن ن لیگ نے جیتے۔ ن لیگ کا ٹکٹ کامیابی کی دلیل تھا۔ فروری 2022تک یہی صورتحال تھی جب ن لیگ، پی پی پی، جمعیت علماء اسلام، ایم کیو ایم، اے این پی، باپ اور چند دوسری پارٹیوں نے وزیرِ اعظم جناب عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا۔

جناب عمران خان کا سراپا مسحور کن ہے۔ انھوں نے پچھلے دس بارہ سال میں ایک نہایت ہی موثر اور جاندار میڈیا ٹیم کے ذریعے جناب نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف انتہائی منفی مہم چلائی کیونکہ عمران خان کو پتہ تھا کہ نواز شریف کی کردار کشی اور انھیں ڈِس کریڈٹ کیے بغیر ان کا راستہ صاف نہیں ہوگا۔ عمران خان کے بیان کو ان کی شوشل میڈیا ٹیم فوراً چار دانگِ عالم پھیلا دیتی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا بھی ان کے بیان کو سارا دن دکھاتا ہے۔ جناب عمران خان اور ان کی میڈیا ٹیم بہت کامیابی سے ٹی وی اسکرین کو زیادہ سے زیادہ وقت کے لیے Occupy کرتی ہے۔

انھوں نے اپنے بیانات میں جناب نواز شریف کو مسلسل چور، ڈاکو اور لٹیرا کہہ کر لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا دیا۔ جناب عمران خان کی میاں نواز شریف کے خلاف سائبر مہم اتنی شاطرانہ تھی اور اب بھی ہے کہ ہر ایک کے ذہن میں اتر گیا کہ نواز شریف ایک انتہائی کرپٹ، بے عقل، بسیار خور اور غیر موزوں شخص ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ نواز شریف نے تین بار پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی، مسلم لیگ ن پر آج بھی ان کی گرفت ہے۔ تاہم جناب عمران خان کے فالوورز کسی کو بات ہی نہیں کرنے دیتے، جھوٹ کو سچ بنانے میں بھی ندامت محسوس نہیں کرتے، بدتمیزی اور زبان درازی میں بھی ان فالورز کا کوئی ثانی ہے، یہ جناب عمران خان کی شاندار کارکردگی اور بہت بڑی کامیابی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب زوردار مہنگائی، کساد بازاری، روپے کی گرتی قیمت، بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے ساتھ بجلی کی کم یابی اور انتہائی خراب معیشت کے سبب جناب عمران خان کی مقبولیت گر رہی تھی ایسے میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے پر جناب شہباز شریف نے کولیشن گورنمنٹ میں وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالا، کہا گیا کہ شہباز شریف اسپیڈ پاکستان کی کایا پلٹ دے گی لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہوا۔

عمران خان کی سوشل میڈیائی ٹیم اور نادیدہ کرداروں نے ایک بار پھر اپنا کردار ادا کیا اور عمران کی خان کی تمام ناکامیوں کا ملبہ شہباز شریف پر ڈالنے کی مہم شروع ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی حمزہ شہباز کا تمسخر اڑانے والی مہم کا آغاز کر دیا گیا۔ اب یہ بھی نظر آتا ہے کہ جناب شہباز شریف کی ٹیم کے پاس معیشت اور معاشرے کو سدھارنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ ان کی ٹیم کے سامنے حکومت میں آنے کے علاوہ کوئی منزل نہیں تھی۔ ایک بڑے فلاسفر نے کہا تھا کہ وہ کشتی جس کی کوئی متعین منزل نہ ہو اس کو کوئی ہوا بھی موافق نہیں ہوتی۔ جناب شہباز شریف کی حکومت نے اندھا دھند فیول کی قیمتیں بڑھا دیں۔

پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ مفتاح اسماعیل اور شہباز شریف نے ایک اور مہربانی کی اور ڈالر کو کھلا چھوڑ دیا جو اب 240روپے کے قریب ہے۔ بجلی کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جب کہ جناب شہباز شریف کی حکومت سین سے غائب ہے۔ یا تو اس حکومت کو زعم ہے کہ وہ کچھ کریں یا نہ کریں عوام ان کے ساتھ رہیں گے یا پھر شہباز شریف اور ان کی ٹیم کو حالات کا ادراک ہی نہیں۔ اصل میں شہباز شریف صاحب کے کریڈٹ کے اوپر اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ جناب نواز شریف صاحب کے بھائی ہیں۔

نہ تو ان کی شخصیت میں وہ جادوئی کشش ہے جو جناب عمران خان اور جناب نواز شریف صاحب میں ہے اور نہ ہی وہ اپنے بل بوتے پر سیاستدان ہیں۔پاکستان کے عوام انفرمیشن وار کا شکار ہیں، تیز ترین انٹر نیٹ کے دور میں کوئی بھی بات منٹوں، سیکنڈوں میں دنیا میں پھیل چکی ہوتی ہے، انفرمیشن کے اس طوفان میں جھوٹ اور سچ کی پہچان کرنا، اب اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کے بھی بس کا کام نہیں، عام سادہ لوح نوجوان تو بس لہر کے ساتھ چل رہا۔

جناب عمران خان کے دور میں تنگ آئے عوام کی زندگیاں جناب شہباز شریف کے دور میں مزید اجیرن ہو کر رہ گئی ہیں۔ ڈالر، سونا اور اسٹاک مارکیٹ بے قابو ہیں۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈرز کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دہائیوں میں بننے والا ن لیگی ووٹ بینک، شہباز حکومت اسی طرح گنوا رہی ہے جس طرح پنجاب میں اس سے پہلے پی پی پی گنوا چکی ہے۔ یہ حکومت جتنا عرصہ مزید رہے گی مسلم لیگ ن کو اتنا ہی زیادہ نقصان ہوگا۔ آنے والے دنوں میں معیشت مزید خراب ہوگی جس کی وجہ سے حکومت مزید بدنام ہوگی اور جناب عمران خان سارا فائدہ سمیٹیں گے۔ ملک اور عوام کا کیا بنے گا، جناب عمران خان اور ان کی ٹیم سے بھی خیر کی توقع نہیں ہے۔