155

پہلے جانور لینے بھائی مل کر جاتے تھے لیکن اب... ماضی کی عید کی چند روایات جنہیں آج دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے

 

عید کا نام زبان پر آتے ہی مرجھائے چہروں پر چمک آجاتی ہے، خوشی و انبساط کے رنگ چہار سو پھیل جاتے ہیں، امیر اور غریب مل کر اپنی بساط کے مطابق عید کی خوشیاں منانے میں مگن ہیں اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ عید جہاں خوشی کا پیغام لاتی ہے وہیں- انسان کو رب کائنات کا شکر بجالانے کا موقع بھی دیتی ہے ، عید کے روز ہر سو خوشیوں کی مہکار ہوتی ہے، ننھے منے بچوں کا شورو غل، حنائی ہاتھوں سے بنے پکوانوں کی خوشبو اور گلیوں محلوں میں میلے ٹھیلوں کا اہتمام اس دن کی رونق کو مزید بڑھا دیتا ہے- لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب ملک میں عید کے رنگ بدلتے جارہے ہیں اور ماضی اور آج کی عیدوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ آئیے ان چند چیزوں کا جائزہ لیں جن سے ہماری ماضی کے بیشمار یادیں جڑی ہیں۔ جانور لیناعید قرباں پر جانور کی خریداری ایک دلچسپ امر ہوتا تھا، لوگ کئی کئی ہفتے پہلے جانور خریدار کر لاتے اور راتوں کو جاگ کر پہرہ داری کرتے، اسی بہانے محلے داروں اور دوستوں سے گپ شپ کا موقع ملتا، بچے دن بھر جانوروں کی خدمت کرتے اور قربانی تک جانور گھر والوں سے اتنا مانوس ہوجاتا کہ اکثر بچوں کی منت سماجت کرنا پڑتی ورنہ بچے رو رو کر بے حال ہوجاتے- لیکن آج کے دور میں وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر لوگ عید کے نزدیک جبکہ اکثر لوگ تو عید کے روز بھی جانور خرید کر لاتے ہیں جن کا مقصد صرف قربانی کا فرض پورا کرنا ہوتا ہے- لیکن ماضی میں جانور کی خریداری کیلئے خصوصی طور پر اہتمام کیا جاتا تھا جو آج دیکھنے میں نہیں آتا۔  کپڑوں کی خریداریچھوٹی عید ہو یا بڑی عید نئے کپڑوں کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں، اس لئے کچھ سال پہلے عید سے کئی روز پہلے سے شروع ہونیوالی شاپنگ کئی کئی روز تک جاری رہتی تھی اور درزیوں کے نخرے بھی آسمان پر ہوتے تھے- لیکن آج مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور وقت کی کمی کی وجہ سے لوگ آن لائن خریداری اور زیادہ تر سلے سلائے کپڑے لینا پسند کرتے ہیں۔ ماضی میں گھروں میں بزرگ اور بچوں کیلئے ایک ہی تھان آتا تھا جس میں سے مردوں کی ایک جیسی شلوار قیمض بنتی تھی اور آج کوئی بھی دوسرے سے ملتا جلتا لباس لینا پسند بھی نہیں کرتا۔ خواتین کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ گھر میں ایک جیسے کپڑے پہنے جائیں اور آج دیورانی جیٹھانی تو دور بہنیں بھی ایک جیسے لباس خریدنا پسند نہیں کرتیں ۔ بھائی چارہماضی میں عید پر بھائیوں کو جانور کی خریداری میں ساتھ لینا ضروری سمجھا جاتا تھا اور قربانی بھی گھر کے مرد خود کرتے تھے- لیکن آج قصائی یا آن لائن قربانی کا رواج عام ہوچکا ہے۔ گھر کے مرد بھی قربانی کروانے سے ہچکچاتے ہیں لیکن پہلے باپ، بیٹے اور بھائی بھتیجے مل کر قربانی کرتے تھے جس سے قربانی کا حقیقی مفہوم بھی واضح ہوتا تھا لیکن آج یہ روایت بھی شاذو نادر ہی دیکھنے میں آتی تھی۔ روٹھوں کو مناناعید پر روٹھوں کو منانا ایک خاص روایت سمجھی جاتی تھی اور جو پہل کرتا اس کو سب سے زیادہ عزت ملتی تھی- لیکن آج گھر میں ہمارے بہن بھائی یا والدین ہم سے ناراض ہوں تو بھی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور ہم کسی کو منانا تو دور، بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے جبکہ دوستوں کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹنے کا رواج بھی کم ہوچکا ہے۔ چھٹی اور گھر کی مصروفیت کے بہانے سماجی زندگی سے لوگ کترانے لگے ہیں جس کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی دوریاں رشتوں کو بہت کمزور کردیتی ہیں۔  پیغاماتعید کے موقع پر ماضی میں خاص طور پر کارڈز اور تحائف بھجوائے جاتے تھے اور بکرا عید پر گوشت بھیجا جاتا تھا لیکن ایس ایم ایس یا واٹس اپ پر ایک ہی پیغام فارورڈ کر کے اپنی ذمہ داری پوری کرلیتے ہیں ۔ کسی سے خاص طور پر عید ملنے یا فون کرنے کی روایت بھی کم ہوچکی ہے ، صرف چند مخصوص لوگوں کے علاوہ اب لوگ ملنا ملانا بھی پسند نہیں کرتے۔ پہلے عید کے موقع پر خاص طور پر بزرگوں سے ملنے کا اہتمام کیا جاتا تھا اور آج گھر میں موجود بزرگوں کو ایک عضو معطل سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس عید پر اپنی کھوئی ہوئی روایات کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کی عید صرف ایک دکھاوا نہیں بلکہ حقیقی عید ہو۔