34

چکوروں کو کھانا کھلانا آسان نہیں ہوتا کیونکہ... پاکستان کا قومی پرندہ اچانک چینیوں کے لیے کیوں اہم ہوگیا؟

 

پاکستان میں چکور نہ صرف قومی پرندہ ہے بلکہ اس کو محبت کی علامت کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔ شمالی ہندوستانی اور پاکستانی روایت کے مطابق بشمول ہندو ثقافت چکور تیتر ایک پرجوش محبت کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ چکور کو چاند سے بہت محبت ہوتی ہے اسی لئے وہ چاند تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اس کے انھیں جذبات کو شاعروں نے اپنی غزلوں میں بہت خوبصورت انداز میں قلمبند کیا ہے۔ پاکستان میں اس پرندے کی افزائش پر توجہ دی گئی ہو یا نہیں لیکن چین بھر میں پاکستان کا قومی پرندہ ایک بار پھر پھل پھول رہا ہے۔ چین کے ایک علاقے شانزی Shanxi میں روزانہ صبح سحر پھوٹتے ہی جب یانگ جیانگو اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو پہاڑوں کی گود میں صرف کیڑوں اور پرندوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ پچھلے چھ سالوں سے 60 سالہ Yang ہر صبح سویرے اٹھتا ہے اور اپنے "چھوٹے دوستوں،" چکوروں کو کھلانے کے لیے مکئی سے بھرا ایک تھیلا لے جاتا ہے۔ آندھی آئے یا طوفاں وہ اپنی یہ ڈیوٹی ہر صورت میں انجام دیتا ہے اور وہ ایسا صرف ان پرندوں کی محبت میں کرتا ہے۔ سرمئی رنگ کی خوبصورت مخلوق، دلکش آواز جو اپنی مرجان کی چونچ اور پنجوں کی وجہ سے ممتاز ہے یہ مرغی سے چھوٹا ہوتا ہے۔ یانگ کے بچپن میں یہ پرندے شمالی چین کے صوبے شانزی / پنگلو کاؤنٹی کے گاؤں کیوان کے کھیتوں اور پہاڑیوں پر ہر جگہ دیکھے جا سکتے تھے۔ یعنی یہ پرندے 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں پنگلو میں عام تھے۔  چوکور کے لیے محبت یانگ کے دل میں چھ سال پہلے ایک موقع پر مزید بڑھی جب فوٹوگرافروں کا ایک گروپ پرندوں کی تصویریں لینے کے لیے پنگلو کاؤنٹی آیا۔ ان سے بات چیت کے دوران یانگ نے انھیں بتایا کہ وہ چکوروں کو کھانا فراہم کرتے ہیں۔ جانوروں کے تحفظ کی کمی کی وجہ سے ان چکوروں کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوئی اور کئی دنوں کی تلاش کے بعد آخرکار انہیں ایک وادی میں دو چکور ملے۔ جانے سے پہلے فوٹوگرافرز نے یانگ کو بتایا کہ یہ پرندہ پاکستان کا قومی پرندہ ہے اور ان لوگوں نے کچھ پیسے یانگ کو دئے تاکہ وہ ان پرندوں کی دیکھ بھال کر سکیں اور انہیں دوبارہ یہاں بسنے میں مدد کر سکیں۔ یانگ نے دل و جان سے اپنا وعدہ نبھایا کیونکہ وہ خود بھی اس پرندے سے بہت محبت کرتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ان کے سحر میں مبتلا ہیں۔ چکوروں کو کھانا کھلانا آسان نہیں ہوتا کیونکہ وہ قدرتی طور پر ڈرپوک اور حساس ہوتے ہیں۔ تقریباً ایک ماہ بیٹھنے اور مشاہدہ کرنے کے بعد اسے ایک پہاڑی علاقے میں کئی چکور ملے۔ اگلے دن یانگ نے اس جگہ پر کھانا پھیلانا شروع کیا لیکن وہ کافی دنوں تک غائب رہے۔ پھر بھی یانگ ڈٹا رہا اور چند ماہ بعد ایک صبح اس نے تین چکوروں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھا۔ انہیں خوفزدہ کرنے کے خوف سے وہ مشاہدہ کرنے کے لئے ایک ٹیلے کے پیچھے چھپ جاتا تھا۔ اب وہ اس خوبصورت پرندے کو بہت قریب سے دیکھ سکتا تھا۔ یانگ کھانا کھلانے کے لئے اپنے موبائل فون پر چہچہاتی پرندوں کی آواز کو پلے کر کے بڑے پتھروں کے پیچھے چھپ جاتا۔ رفتہ رفتہ چکور اس آواز سے مانوس ہوتے گئے۔ ان پرندوں کا اعتماد حاصل کرنے میں یانگ کو آدھا سال لگا۔ شروع میں30 چکور سے زیادہ روزانہ چارہ کھاتے پھر یانگ کو ان کی آبادی میں مسلسل اضافہ دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوئی۔ فوٹوگرافروں کی پبلسٹی کے ذریعے پرندوں کے شوقین مزید شوٹنگ کے لیے آنے لگے اور یانگ پرندوں کا رہنما بن گیا یہی وجہ ہے کہ فوٹوگرافر انھیں "انکل برڈ" کہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پہاڑی زمینوں کو جنگلات میں تبدیل کرنے کے ساتھ مقامی ماحول میں بہتری آ رہی ہے اور جنگلی جانوروں جیسے بگلے اور گولڈن فیزنٹ کی آبادی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پنگلو اب مقامی طور پر وائلڈ لائف فوٹوگرافروں کے لیے وزٹ کرنے والے مقامات میں سے ایک ہے۔  وائلڈ لائف حفاظت کے ساتھ ساتھ یانگ کے لئے ان کا شوق آمدنی کا بہتریں ذریعہ بھی بن گیا ہے وہ اس کے لئے ان فوٹوگرافرز کے شکر گزار ہیں۔ اب ان کے گاؤں میں لوگ اس مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔اب کیوان گاؤں فوٹوگرافرز کی توجہ کا مرکز ہے۔ یانگ چکوروں کی دیکھ بھال کے ساتھ زراعت اور کاشتکاری سے اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہوئے سالانہ 10,000 یوآن اضافی کما لیتے ہیں۔ لیکن اب شاید انھیں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے یہاں سے نکلنا ہو گا۔ وائلڈ لائف آرگنائزیشنز اور گاؤں کے لوگ ان کے مقصد کو جاری تو رکھیں گے لیکن وہ اداس ہیں کہ وہ اپنے خوبصورت دوستوں کو کھانا نہیں کھلا سکیں گے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے یہ وسائل ہماری کمائی کا بہترین زریعہ ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے یہاں اس طرح کی کہانیاں شازونادر ہی ملتی ہیں من حیث القوم ہمیں اپنے اندر جدت اور کام کی لگن پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو نہ صرف ہمارے ذاتی مفاد بلکہ قومی مفاد میں بھی کارآمد ہو گی ۔